aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
جعفر زٹلی کو محض فحش نگار اور ہجو گو شاعر خیال کیا جاتا ہےلیکن حقیقت یوں ہے کہ جعفر زٹلی کا تعلق اردو کے اولین دور سے ہے اس لحاظ سے کلامِ جعفر زٹلی کی تاریخی اور لسانی اہمیت یہ ہے کہ ان کے کلام میں سماجی مسائل کا بے لاگ بیان موضوع ہے اوراس مناسبت سے لہجے میںکھردرا پن اور بے باکی در آئی ہے جس سے آگے صنف شہرآشوب کو فروغ ہوا۔اس کلامِ نظم ونثر کا زیادہ تر حصہ فارسی پر مشتمل ہے لیکن درمیان میں اردو کی پیوند کاری کی گئی ہے کہ کبھی کچھ الفاظ،کچھ مصرعے،ایک آدھ شعرغیرمنظم صورت میں در آتے ہیں۔
جعفر زٹلی ’’اردو نظم میں جعفر زٹلّی کو پہلا ظریف شاعر یا ہزّالی مانا جاتا ہے۔ ان کا زمانہ اورنگ زیب عالمگیر کا آخری دور ہے۔ چونکہ اس زمانہ میں دربار کی زبان فارسی تھی اور اردو کا رواج بہت کم تھا، اس لئے ان کی شاعری میں زیادہ فارسی کے الفاظ بلکہ پورے پورے فارسی کے مصرعے پائے جاتے ہیں۔ جہاں تک اس دور کے مذاق کا تعلق ہے، ہر وہ بات جس سے انسان ہنس پڑے خواہ وہ فحش ہی کیوں نہ ہو مزاح و ظرافت تصور کی جاتی تھی۔ نثر و نظم دونوں میں جعفر کا انداز بالکل ایک سا ہے۔ زٹلیؔ کی ہجویات سے نہ صرف رؤسا بلکہ بادشاہ اور شہزادے تک ڈرتے تھے۔ انہوں نے ’’شرارت‘‘ کے نام سے جو مضمون نثر میں لکھا ہے، اس میں بہت سی، اچھوتی اصطلاحات ہم کو ملتی ہیں۔ شعر و سخن کے میدان میں بھی انہوں نے انوکھی اضافتیں اور نئے نئے محاورات استعمال کئے ہیں۔‘‘
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets