ترتیب
والشمّس
کستوری
ناخلف
گلے پڑاؤ سے پہلے
وقت سے تخاطب
میرؔ جی گھر سے جب بھی نکلو
گھائل کی گت
اگلی رت کی نماز
تاسّف
یقیں ہے مجھ کو
شعر شورا انگیز
رزم شب
دل کی ضمانت
بابل مورا
دست بے دعا
اگر تم آسکو تو
پیش رو
نقش فریادی
تجھے چھو کر
گیان
معصوم بھیڑیں
خواب صادق
وقت چاہے تو گذر جائے یونہی
بے نیازی حد سے گذری
گھٹا گھنگھور
برندابن
کوئی ہے۔؟
کچّے مسافر
تذبذب
اجل مجھ سے مل
ارژنگ
اگر یہ مان بھی لوں
شدنی
نئے یگ کا خواب
دل کے ٹوٹنے تک
تسلسل ضروری ہے
المیہ۔۲
لہو کی حرارت
اقرا بسم
نادید
کھیل جاری ہے
تجسیم
پھر وضع احتیاط سے رکنے لگا ہے دم
کوئی اتنا یاد نہ آئے
گذران
اے مرے اہرمن
ملاقاتی
حمل
اپنے لئے ایک دن
مینو پاز
کیون جھر
کّٹی
ساتواں موسم
وہ میری چپ میں روشن ہے
کھیل
الحقُّ
میں جلدی میں ہوں
ساتویں شہزادی کا قصّہ
کوئی آئے نہ آئے
کوراسچ
یہ منکر دل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے
سرحدوں کے درمیاں
مخاطب کی تلاش
درمدح خانۂ خود
کربلا
حاصل جمع
نیا ادھیائے
جرمانہ
ایکوسسٹم
دور اندیشی
لاتقنطوا
انحراف
سکّم
تادیب
خود میں جینے کی رت
شوق خانہ خراب
ہیلو سینیشن
فسانۂ عجائب
فالک لینڈ مارگ سے گذرتے ہوئے
اپنے لئے ایک مشورہ
دل کسی کا نہیں
نظمیں جھوٹ نہیں کہتیں
۱۹۹۶ء کی پہلی نظم
بولی
اے زیرک لوگو۔!
خود کلامی
تمہیں چاہنے کے بعد
مٹّی+مٹّی=مٹّی
ایک نظم اپنی ماں کے نام
ایک ترقی پسند کا نوحہ
کھوئے ہوئے لفظوں کے نام اک نظم
ستائسویں شب کا جرمانہ
کتنا پانی۔؟
دراڑوں کے ہمسفر
مجھے مت چھوؤ
تزکیہ
ڈراپ سین
بائیں پسلی کے انکار تک
سرگوشی
زنجیر
سمندر ایک سے ہوتے ہیں
قمری
تضاد
تجربہ
نیا پرانا قصّہ
فوٹو سنتھیس
شہر سے خالی جانا پڑے گا
تیسرا پہر
سمندر کے کنارے
باہری
حادثہ
گمراہ کرنے والی آنکھیں تری مسافر
مشورہ
دل اور تم
خوف
جذبۂ درد بچائے رکھو
واپسی
درد کا رشتہ
دوستی
نوحہ
پچھتاوا
وصال
ترتیب
والشمّس
کستوری
ناخلف
گلے پڑاؤ سے پہلے
وقت سے تخاطب
میرؔ جی گھر سے جب بھی نکلو
گھائل کی گت
اگلی رت کی نماز
تاسّف
یقیں ہے مجھ کو
شعر شورا انگیز
رزم شب
دل کی ضمانت
بابل مورا
دست بے دعا
اگر تم آسکو تو
پیش رو
نقش فریادی
تجھے چھو کر
گیان
معصوم بھیڑیں
خواب صادق
وقت چاہے تو گذر جائے یونہی
بے نیازی حد سے گذری
گھٹا گھنگھور
برندابن
کوئی ہے۔؟
کچّے مسافر
تذبذب
اجل مجھ سے مل
ارژنگ
اگر یہ مان بھی لوں
شدنی
نئے یگ کا خواب
دل کے ٹوٹنے تک
تسلسل ضروری ہے
المیہ۔۲
لہو کی حرارت
اقرا بسم
نادید
کھیل جاری ہے
تجسیم
پھر وضع احتیاط سے رکنے لگا ہے دم
کوئی اتنا یاد نہ آئے
گذران
اے مرے اہرمن
ملاقاتی
حمل
اپنے لئے ایک دن
مینو پاز
کیون جھر
کّٹی
ساتواں موسم
وہ میری چپ میں روشن ہے
کھیل
الحقُّ
میں جلدی میں ہوں
ساتویں شہزادی کا قصّہ
کوئی آئے نہ آئے
کوراسچ
یہ منکر دل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے
سرحدوں کے درمیاں
مخاطب کی تلاش
درمدح خانۂ خود
کربلا
حاصل جمع
نیا ادھیائے
جرمانہ
ایکوسسٹم
دور اندیشی
لاتقنطوا
انحراف
سکّم
تادیب
خود میں جینے کی رت
شوق خانہ خراب
ہیلو سینیشن
فسانۂ عجائب
فالک لینڈ مارگ سے گذرتے ہوئے
اپنے لئے ایک مشورہ
دل کسی کا نہیں
نظمیں جھوٹ نہیں کہتیں
۱۹۹۶ء کی پہلی نظم
بولی
اے زیرک لوگو۔!
خود کلامی
تمہیں چاہنے کے بعد
مٹّی+مٹّی=مٹّی
ایک نظم اپنی ماں کے نام
ایک ترقی پسند کا نوحہ
کھوئے ہوئے لفظوں کے نام اک نظم
ستائسویں شب کا جرمانہ
کتنا پانی۔؟
دراڑوں کے ہمسفر
مجھے مت چھوؤ
تزکیہ
ڈراپ سین
بائیں پسلی کے انکار تک
سرگوشی
زنجیر
سمندر ایک سے ہوتے ہیں
قمری
تضاد
تجربہ
نیا پرانا قصّہ
فوٹو سنتھیس
شہر سے خالی جانا پڑے گا
تیسرا پہر
سمندر کے کنارے
باہری
حادثہ
گمراہ کرنے والی آنکھیں تری مسافر
مشورہ
دل اور تم
خوف
جذبۂ درد بچائے رکھو
واپسی
درد کا رشتہ
دوستی
نوحہ
پچھتاوا
وصال
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔