سرورق
فہرست
مقدمہ
زمانے کے حوادث سے نہ دیکھے منہ تباہی کا
غزلیات
ہو شرح وبیاں کس سے ترے راز نہاں کا
ہمرنگ کیوں کہوں میں اسے لالہ زار کا
جو دل کہ جلوہ گاہ ہو اس کے نور کا
موسیٰ نہ جلوہ دیکھ سکا اس کے نور کا
میں منتظر دید ترے در سے نہ سحر کا
بزم میں یک شب بھی نرمایا نہ دل گلگیر کا
دیکھے تیشہ جو کبھی تیری جفا کاری کا
گر کوئی کاٹ لے سر بھی ترے دیوانے کا
کچھ اور ہی عالم ہے ترے تفتہ جگر کا
نہیں معتقد جو ترے دید کا
دیکھ کر حسن گل عذاروں کا
اس کو فرزا نہ کہیں چوہو دوانا عشق کا
پہلو میں مرے دل ہے طلب گار کسی کا
دل پھر اہم سے یار جانی کا
حال اب تنگ ہے زمانے کا
اے بلبل لطف دیکھو اس سادہ رو کا
مزہ دکھاؤں تجھے تیری بے وفائی کا
گلہ کرے جو کوئی اس کی بیوفائی کا
جیسا کہ دل پہ زخم ہے اس کے خدنگ کا
دل میں ہر چند ہے خیال اس کا
اٹھ اے طبیب جا مجھے آرام ہو چکا
ظالم نہیں علاج کہیں اس گزار کا
ہماری آہ کے صدمے نہیں اٹھانے کا
سر اس کی تیغ سے جب تک جدا نہ ہوئے گا
جیتے ہی جوفنا کی تدبیر کر سکے گا
غیروں ہی پہ تو ستم کرے گا
مگر یوں ہی کوئی دن حسرت دیدار کھینچے گا
ہزار پیار کرے گا ہزار چاہےگا
ہم پہ سو ظلم وستم جورو جفا کیجئے گا
گر یوں ہی یہ دل درپئے آزار رہے گا
ترا داغ کیا دل سے جاتا رہے گا
مدعی کی ہے جو کچھ چال سو کیا چھوڑےگا
مہربانی سے مرے پاس اگر آئے گا
کیا فکر تو کرتا ہے اس فکر سے کیا ہوگا
جس نے تری آنکھوں کو ٹک دیکھ لیا ہوگا
مرے جب تک کہ دم میں رہے گا
اس طرف تو نہ تجھے زور نہ زر کھینچے گا
تیرے دیدار سے محروم اگر جاؤں گا
پنہاں تھا حسن یار نمودار ہو گیا
عکس رو سے اس کے گھر آئینہ خانہ ہو گیا
ہاتھ قاتل کا مرے خوں سے نگاریں ہو گیا
جب عشق میرا شہرہ ٔ آفاق ہو گیا
آیا ترا خیال خور وخوب لے گیا
وہ کماں ابرو مرا جب چیں بر ابرو ہو گیا
کس وقت خشک دیدۂ نمناک ہو گیا
بھول پڑا کیا جو ادھر آگیا
میں ہی نہ کچھ دیکھ ادھر رہ گیا
اشک کے ہم راہ دل تک بہ گیا
اس کا خدنگ دل سے جگر سے گزر گیا
تجھ سے ظالم کو اپنا یار کیا
رخسار پر ترے خط شب رنگ آگیا
صبح کی طرح جو کل چاک گریباں کیا
تونے جو ترک شیوۂ جورو جفا کیا
دے کے دل پچتانے سے ہوتا ہے کیا
وہ زمانہ کیا ہوا جو مرے گریےے میں اثر تھا
شہرت نہ تھی جب تیری کوئی اور کدھر تھا
مارنا تلوار اے خوں خوار کیا درکار تھا
جس دل برو دلدار تھا خوش چشم رفتار تھا
قیس پھرتا جو رہا دشت میں دیوانہ تھا
ثمر سے یاس نخل بیشۂ فریاد رکھتا تھا
اگر جنت یہی کچھ ہے تو کوئے یار بہتر تھا
وہ ناآشنا نکلا جو آشنا تھا
شب کسے آنا ادھر منظور تھا
جا کے دیکھا میں ارم میں تو وہ کیا تھا کہ نہ تھا
کیا ہوئے وہ دن کہ فلک دل خراب آباد تھا
جن دنوں سینہ ہمارا جلوہ گاہ نور تھا
ہر جسم حباب وار دیکھا
ہاں مدعی اپنا کسے اے یار نہ دیکھا
یار کو قاصد مرے جاکے اگر دیکھنا
غش آگیا وہ سامنے میرے جہاں ہوا
تری زلف کا عقدہ جب وا ہوا
حیرت دل سے میں اس واسطے خورسند ہوا
جب سے اس شعلہ رو سے یار ہوا
کب ترے غمزدے دیوانے کا مسکن نہ رہا
تیر مژگاں کا مرے دل میں کھٹکا ہی رہا
دامان پونچھنے سے پشیمان ہی رہا
اے جنوں نے گل ربا نے سرد گلشن میں رہا
زلفوں سے لے کے دل بھی اسی چشم کو دیا
سوز دروں نے کیا یہ دل وجاں جلا دیا
دل کی تپش نے ان دنوں سونا بھلا دیا
بام پر پی کے وہ شراب آیا
بوسے کا اگر تجھ سے طلب گار نہ ہوتا
گر لب پہ مرے نالۂ جاں کاہ نہ ہوتا
ایسا دل ہاتھ ترے آئے گا کم لیتا جا
بے تاب نے ترے کیا رہنے کو گھر بنایا
جب سے ہے اس جبیں پہ جبیں پیدا
کہتا ہے ایک عالم انصاف کر ہمارا
جہاں میں بادۂ عشرت پیا پیا نہ پیا
ہر چند خوب صورت یاں نت نیا بنایا
ہوا ریگ رواں کی طرح جس جاگہ گزر اپنا
اٹکھیلیوں سے چلنے کا تجھ کو مزہ ملا
تعلقات جہاں سے خبر نہیں رکھتا
گزر ادھر جو کبھی میرے مسیحا کرنا
دھو ڈالے اشک ہو کسی تدبیر کا لکھا
یہی کچھ تھا ہمارے صفحۂ تقدیر پر لکھا
اس ادا کا ہوں تیری دیوانہ
تنہا نہ عشق میں یہ دل ناتواں جلا
اس دل صاف سے رہتا ہے عبث یار خفا
تیری مژہ کے سامنے ہو کس کو ہے یارا
سامنے اس کے رو نہیں سکتا
کوئی اس غم کدے میں اپنی غم خوری نہیں کرتا
ان دنوں وہ ادھر نہیں آتا
اگر منظور ہو اے عشق دل کو پاک کر دینا
ناصحوں کی بات مانے نہ دیوانہ برا
پہلو میں جب سے بیٹھا ہے بیکاں دوسرا
دیکھئے روز جزا ہوئے ہے کیا حال اپنا
جب سے ہوا ہے مجھ سے وہ گل پیرہن جدا
یہ دل کب سرزنش سے عشق کی اے مہرباں ٹوٹا
جادو کیا نگہ نے پلکوں نے بان مارا
جیتے ہی جی گر ایک بھی بوسہ آہ سے انعام نہ ہوگا
مجھ سا فتادہ ہو جو ہم آغوش نقش پا
بتا یہ سنگ دل کی بزم میں توقیر ہوئی پیدا
ہمارے خانۂ دل میں نہیں ہے جاے ہوا
وہ سوختہ ہوں دیکھ جلے جان ہمارا
ہے یہی زمزمۂ مرگ سحر آخر شب
بے تاب ہی رہتا ہوں تری یاد میں ہر شب
نہ کام باغ سے ہے نہ بہار سے مطلب
کیجئے نرمی کا پیشہ شیشہ شیشہ ہے شراب
میں آپ مست ہوں کب دیکھتا ہوں سوئے شراب
جو اس کا جلوہ ہو جوں آفتاب در تہہ آب
خفا ہو اس نے لکھا مجھ کو پھر جواب شتاب
تھم جائے دیکھ کر تجھے جوئے چمن میں آپ
کہتے کہتے مفت تھکتی ہے زبان عندلیب
عیش سے بے بہرہ ہیں اور درد غم سے بے نصیب
اپنی بصارت کہاں اور کہاں روے دوست
ملنے کو تو ملیں گے تجھے یوں ہزار دوست
شراب شوق سے سرسبز تورہ تاک کی صورت
کن نے دیکھی نہ تمہارے کف پا کی صورت
نہ شکل شیشہ آتی ہے نظر نے جام کی صورت
دے جان تلک اپنی پرستار محبت
نہ ہوتے ہم خریدار محبت
کہتے ہیں دل کو اہل دلاں جائے معروف
مطق نہیں احوال کے اظہار کی طاقت
مجھے دل ہی کے آستانے کی دولت
رکھ ناز سے نہ آنکھوں پہ اے حور پشت دست
تم تو رہتے ہو مرے در پےآزار عبث
اشک گرم آنکھوں سے تاصبح رہے جاری رات
غیروں کو دیکھ دیکھ تری انجمن کے بیچ
جو نہ گزرا نہ ہوا نوح کے طوفاں کے بیچ
اس کے بحر حسن میں ابرد ہے جوں شمشیر موج
اس زلف گرہ گیر کو ٹک دیکھے اگر موج
عاشق کی دل پسند ہو کیوں کر قمر کی طرح
کچھ کہی جاتی نہیں مژگان دل بر کی طرح
گو دھجیاں کر اپنا گریباں اڑائے صبح
نہ ملتجی کبھی ساقی سے ہوں برائے قدح
کرے ہے جیب کو جیسا یہ چشم گریاں سرخ
مہ کو سو چشمہ خورشید سے دھوئے خورشید
دو شیریں لب نہ ہوئے گا کبھو تلخ
نقد وفا سے تو ہمیں اے یار کر خرید
جو میری یہ مژۂ اشک بار ہے موجود
قبا کا اپنی تو کھولے اگر بند
ہے مرے دل کا داغ سرخ وسفید
ہر بے زبان اہل زباں سے ہے سر بلند
یارب کہیں جلد آے قاصد
ہم ہی کرتے نہیں زلفوں کو تری یار پسند
لکھا خط اسے لے قلم اور کاغذ
بے درد طبیب مت دوا کر
اہل جہاں کے ملنے سے ہم احتراز کر
لائی ہے تجھ تلک اجل اے یار کھینچ کر
منت تاثیر اے آہ سحر گاہی نہ کر
اہل ہمت شاد ہوتے ہیں گدا کو دیکھ کر
بار بار اس کی طرف دیکھا نہ کر
آہ وفغاں سے اپنی زباں آشنا نہ کر
اے چرخ بے کسی پہ ہماری نظر نہ کر
فصل گل آئی ہے تو باب قفس باز نہ کر
صد آفریں ہے یار فغافل شعار پر
چھا جائے اگر دود دل تنگ بھا پر
ہم تو مرتے ہیں اس گدائی پر
گرٹک متوجہ ہو وہ مے نوش فلک پر
کیا کیا ستم نہ تو نے کئے میری جان پر
زلف اس کی جو کھلی پڑی منہ پر
نہ ڈر قاصد گر اکر اشک بے تاثیر کاغذپر
ہے تن کا ہیدہ رشک سایۂ مژگان مور
رخ یہ چاہے تھا کہ دل کو کرے تسخیر بہ زور
پیدا ہوا ہے دل میںنئے سر سے درد پھر
شیخ جی تم نہ کہو خوف ورجا سے بہتر
غنچے کو دیکھ دل نہ لے احسان روزگار
کیوں حیا سے تو نکلتا نہیں گھر سے باہر
اے طبیبوں تمہاری کیا تقصیر
کی ہے ترے دیوانے نے تقصیر سی تقصیر
جہاں میں کس طرح سب ہوں برابر
حدیث مستی ورندی پہ گر ہو گوش خاکستر
ہر چند مثل خضر یہاں ہو قرار عمر
لطف واشفاق ترا مجھ کو تو کیا ہے درکار
بے مے وہ معشوق جب گہر آئے ابر
رہنا ہے خوف مجھ کو مری جان پیشتر
ہو اگر ہاتھ مرا چاک گریباں سے دور
نہ کر آزردہ بار کی خاطر
زیارت گاہ عالم ہے ترادر
زلفوں میں کیوں نہ ہو یہ دل زار بیقرار
دل صاف اپنا داغوں سے مکدر ہو گیاآخر
میں مرگیا پہ ہے وہی آہ وفغاں ہنوز
دیدار کی ترے نہ گئی آرزو ہنوز
ہے اس کے دل میں صنع الٰہی کا ڈر ہنوز
ہمارے حال پہ اس کی نظر نہیں ہر گز
کیوں نہ اشک تہ مژگاں ہو اثر سے لب ریز
ترے عارض پہ خط نکلا ہے کیا سبز
دل میں یوں رہتے ہیں اسکے تیر کے پیکاں عزیز
ہیں داغ مرے جزوبدن جوں پر طاؤس
زلف رکھ دل کو نہ چشم سیہ یار کے پاس
کبھی نہ دے گئے اک زخم یاد گار افسوس
کیا کریں گے یاد اے صیاد آرام قفس
ہے دل مرا اے دل برہم شیشہ دہم آتش
دل ہے کیا سینۂ سوزاں میں قرین آتش
سینے میں غم عشق نے کی مشتعل آتش
اگر داغ جگر اپنا دکھاؤں آب ہو آتش
ہوئے نہ میرے دل سے لب یار فراموش
نے دولت آرزو ہے نہ دنیا نہ دیں غرض
کیوں کر نہ گرد باد کو ہوئے ہواے رقص
صاف طینت سے کریں ہیں شعلہ رو کم اختلاط
اگرعارض ہو اس آئینہ روکا سبزہ زار خط
منظور ہو جو سینہ سوزاں کی احتیاط
نہ اس کے لطف سے خوش نے کرم سے ہے محفوظ
ہمارے اس کے جو آپس میں تھے ربط
کر سیر باغ دل جوہر آہنگ ہے وسیع
اب عبادت کو مری تو نے جو کی ہے تصدیق
کروں نہ دولت دنیا کی زینہار طمع
ہر شب جو کھیلتی ہے یاں اپنی جان پر شمع
ہوئے میرا مہ تاباں جو تماشائی شمع
ہوئے ہیں دل خم ابرو میں تیرے جاناں جمع
رکھتا نہیں میں لالہ صفت دل میں چار داغ
خوف کیا ہے گو صبا ہو دست انداز چراغ
کروں میں دید سے قطع نظر دروغ دروغ
رات بے تابانہ ہو کر صدمئے فرق چراغ
اس دل صد چاک میں یوں جلوہ گر ہے اس کا داغ
زخمی جگر کے دل میں ہے کیاآرزوئے تیغ
شاید گزر ہواہے ترا آج سوئے زلف
اس کے رخسار پر کہاں ہے زلف
کیوں کہوں قامت کو تیرے اے بت رخسار الفت
مائل ہوں کب پناہ کی تدبیر کی طرف
کرتا ہے کون مجھ سے گنہ گار کی طرف
کیا شمع ہے مبتلائے عاشق
وہ شگفتہ دل جو تھا یک عمر گلشن کا حریف
ہنگامۂ یک محشر رکھتا ہے سر عاشق
کس طرح کم ہوئے یہ سودائے عشق
مارا ہوا تمہارا تو عالم ہے زیر خاک
چمن کی سیر کا کیا خاک ہو شوق
اس کے دیار میں نہیں ملتا نشان اشک
رہنے نہ دے گی یہ مژۂ اشک بار خشک
ہم رہے اک عمر مہمان فلک
گو سونپے مجھ کو گردش افلاک زیر خاک
تیرے عشاقوں میں ہیں اہل جگر ایک سے ایک
یہ دم بدم کا روٹھنا اے یار کب تلک
ہے آفتاب اور مرے دل کا داغ ایک
یاد کر تیرے لب مے گوں کا اے جاناں نمک
یوں ہے عارض پہ خط زلف پریشاں نزدیک
گر بھڑک اٹھے ہماری جان غم پرور سے آگ
وہ بھری ہے مرے جگر میں آگ
چشم تر لب نمشک ہیں اور دل پریشاں زرد رنگ
چہرے کا میرے کیوں نہ مشابہ ہو زر سے رنگ
ہر چند میرا دل نہیں اے بد دماغ تنگ
کیوں نہ ہوں ہم نفساں اپنے دل تنگ سے تنگ
معدوم ہوں یہی تھی سدا آرزوے دل
اشک سے ہوئے نہ افسردہ دل تنگ میں آگ
روشن ہے آفتاب کے مانند داغ دل
کہتے ہیں سب سن کے آہ سر دل
لے بھی کہیں شتاب جو لینا ہو یار دل
زلف کا مبتلا ہوا ہے دل
نہیں معلوم وہ کب لے گیا دل
بلبلو کرتی ہو کس واسطے عمل برسر گل
منت کش چمن نہ ہوں بلبل برائے گل
لعل لب سے ترے شراب خجل
دور داماں نے تیرے نہ لیا خاک کے مول
کبھی اس چشم پرفن سے یہ دل ہوتا نہ تھا غافل
دام غفلت ہی میں دن رات گرفتار ہیں ہم
گلزار محبت میں نہ پھولے نہ پھلے ہم
تری طہارت گو شیخ کہہ تو کہاں سے لائیں اک آب جو ہم
گو کہ محتاج ہیں گدا ہیں ہم
تجھ سے ہی کیا وفا کی نہیں خوش نگاہ چشم
ہو گیا ابر دو بدو اے چشم
غافل اس چشم سے نہ رہ اے چشم
گو کہ تو ملنے لگا اے ماہ کم
گرے ہیں اشک مرے دیدۂ پر آب سے کم
عرق آزردہ مکھڑے پر نظر گر ٹک کرے شبنم
اس کمر کے خیال میں ہیں ہم
مونس دل ہوئے ہے ایک ہی دم شادی وغم
آئے ہو سو طرح کا گر اس دل پر غم میں غم
یوں غنچہ لب سبھی ہیں کرتے ہیں سب تبسم
مجھ پر بتاں میں کرم نہ کریں یا کرم کریں
بتاں ہزار نہ لیویں ہزار ناز کریں
سوز دل سے تری محفل میں جلا جاتا ہوں
ہر چند ہم پہ جوروجفا روز وشب کریں
یار کے تیر کانشانہ ہوں
یارب نہ بگوں ہوں نہ میں ریگ رواں ہوں
خراب بادۂ شوق لباں سے گوں ہوں
ہر چند ظالموں کا اے چرخ آشنا ہوں
کافر ہوں گر کسی کو دیوانہ جانتا ہوں
کہوں کیا کون ہوں میں اور کیا ہوں
میاں یہ یاد رکھیو کہہ چلا ہوں
یاد جب تجھ کو یار کرتا ہوں
تم نے تو پھیر دیا دل میں لئے جاتا ہوں
جلا بلا ہوں گرفتار حال اپنا ہوں
تجھے اے شعلہ رو کب چھوڑتا ہوں
نالۂ دل کو تو کوتاہی نہیں
سیر سے اس کو کوئی محرم نہیں
تجھ سوا اور سمت دیکھا ہی نہیں
ہے کون سی جگہ یہ ستم کش جہاں نہیں
بہ حسن وخلق تو کسی انسان میں نہیں
جس کے دل میں خواہش دنیا نہیں
کب میں اس کی بزم میں جاتا نہیں
جب نہ جز جوروجفا کچھ اسے منظور نہیں
کون سی جا ہے وہ جلوہ گہ یار نہیں
خوشی سے گرچہ ہمیں اک دم اتصال نہیں
کون زلفوں میں تری یار گرفتار نہیں
بات کوئی دم کی ہے جینے کی مجھے آس نہیں
دیا دین ودل تک رکھا کچھ نہیں
کر قتل شوق سے مجھے خوف وخطر نہیں
جیب وداماں نہیں دیدہ گریاں نہیں
رہتا ہے نت خیال تر ادیکھتے نہیں
تجھ سے جو تشنۂ دیدار ملا چاہتے ہیں
جفا وجور کرتے ہیں بتاں آزار دیتے ہیں
چشم خونخوار ابروے خمدار دونوں ایک ہیں
جفا وجور کے مشتاق ہیں ہم تجھ پر مرتے ہیں
اگر چہ خنجر تر کا نہ خوں آشام ہوتے ہیں
جو تیرے سامنےآئے ہیں سوکم ٹھہرے ہیں
کیا ہوا گر کوئی دم عشق میں ہم جیتے ہیں
لذت وصل تصور میں اٹھا رہتے ہیں
کشور زلف میں جو بستے ہیں
نوخطاں منہ سے مرے منہ جو ملا دیتے ہیں
لے چلے ہیں دل دریں درپے جاں رہتے ہیں
جس کی محفل میں فرشتوں سے بھی پر جلتے ہیں
کہاں وضع لطف وکرم جانتے ہیں
دنیا میں زندگی سے بیزار ہیں تو ہم ہیں
چمن میں آئی ہے فصل بہار سنتے ہیں
جو تیری تیغ ستم کھائے ہوئے بیٹھے ہیں
عمر عزیز گزرے ہے رنج وملال میں
ہم نہ کچھ بہر نام روتے ہیں
کریں ہیں جور کا تیرے ہی شکوہ یار آپس میں
جلوہ گر دل ہے دیدۂ نم میں
ہوا ہے گھر بتاں کا یہ دل دیوانہ پہلو میں
ہلنے پائے نہ تجھ سے دنیا میں
تنہائی سے ہے صحبت دن رات جدائی میں
تجلی عشق کی جب سے ہوئی ہے جلوہ گر دل میں
رہتا ہوں اس کے سایہ تیغ نگاہ میں
یہ دل جو بغل میں خیال آفریں ہے
مصور ڈال دیوےے گر تری تصویر پانی میں
اس کا ن ملاحت کی اگر یاد نہیں ہے
الٰہی کیوں پھنسا یا ہم کو دام آشنائی میں
ہوا رخصت طلب جب بیٹھے ہی یار پہلو میں
آتا ہے مجھے لطف چمن یاد قفس میں
نظر آتا ہے ساقی جلوۂ نیرنگ شیشے میں
یار محفوظ ہے رقیبوں سے
کئی اک لاگ ہے جس سے لگی ہےآگ پانی میں
آگے اس کے ڈبا دیدۂ تر پانی میں
مانند جام جسم ہے سب کچھ مری نظر میں
کام کیا مجھ کو ربط عالم سے
ہر چند کو دیکھے ہے وہ پیار کی آنکھوں سے
ہے کیوں کر نہ ساقی دخت رز دل گیر شیشے میں
سخت رنجور ہوں اور تجھ سے بہت دور ہوں میں
صفا ذاتی ہے اے شیشہ گراں ہر چند شیشے میں
مقدور کیا جو تجھ سے میں ردو بدل کروں
یہ تمنا ہے کہ قرب آئینہ سا پیدا کروں
ہم راہ سیل اشک پھرے میں جہاں پھروں
ہم سفیرو کیا کروں جس وقت گھبراتا ہوں میں
تیرے ڈر سے کب میں جاتا ہوں کہیں
کیا کروں کچھ فکر ہو سکتی نہیں
ان نے پہلے ہی پہل پی ہے شراب کے دن
کیوں نہ خوش آئے ترے عشق میں ویرانہ جاں
موتی دامان مژہ سے کیوں نہ روے آستیں
جب روؤں یاد کر تیرے کوچے کی سرزمیں
تجھ سے ہم بزم ہوں نصیب کہاں
بے یار اس چمن میں کہہ وہ نہ آئے باراں
یاجان کی ہیں گاہک یا دل کی چو آنکھیں
بھاتا ہے تیرے آگے کب مجھ کو یار گلشن
باتیں جو کچھ تھیں ننگ وناموس کی ڈبوئیں
ہے ان دنوں شاید نظر یار پریشاں
عشق ہستی سوز آجابھی کہیں
کیا بات تیرے حسن کی اے افتخار حسن
میرے پہلو میں تڑپتا ہے پڑا ان روزوں
ہیں دل جگر ہمارے یہ مہرباں دونوں
سنے ہے کون کرتے تجھ سے ہم بیاں تجھ بن
جب تک اس میں غم دنیاہے دل شاد نہ ہو
اے رفو گر تو رفو کرکے پشیماں نہ ہو
تیری محفل کی ہو ااے یار سر میں گر نہ ہو
دل جو بیتاب وبیقرار نہ ہو
نے اگر تجھ سے دودمند نہ ہو
اہل نیاز سے تری خجل نہ ہو
عشاق کے نصیب میں سیر چمن نہ ہو
پریشاں اے زلف بہر دم نہ ہو
اگر بیتابی دل سے لکھوں کچھ اس کو مضطر ہو
یہ زیست طوف دل ہی میں یارب تمام ہو
اگر ایک دم تو ہم آغوش ہو
یہ جائے خار تمام اس میں غنچہ وگل ہو
اس تشنہ کے جو قتل کا اس کا ارادہ ہو
گو کہ عیش ابد میسر ہو
راغب نہ ہو طبیعت گر حور رو بہ رو ہو
جبہہ سائی سے ترے در کی نہ یہ دل سیر ہو
ہے آرزو بغل میں دوست شراب ہو
آئے ہے یار دیکھئے کیا ہو
میں نے پوچھا خوش مرے آنے سے ہو
چاہے بہتیرا کوئی پر کیا ہو
اور کچھ ہو یا نہ ہو یہ کام ہو
مسکرانے پر ترے دیکھے جو حیراں غنچے کو
لے جائیے جو ساتھ دل بیقرار کو
آگ دے دوجہاں کے حاصل کو
ہے میسر دم بہ دم دیدار یار آئینے کو
چھوڑ دے مار لات دنیا کو
یوں پاس بٹھانے کو بٹھا یار کسی کو
کیا سر سبز رونے نے مرے دشت وبیاباں کو
ادھر زنداں کی الفت کھینچتی ہے اس دوانے کو
قاتل زرا تو کہہ دے یہ تیغ نگاہ کو
پیری میں بھلا ڈھونڈیے کیا بخت جواں کو
دیکھتے ہی اس رخ پرنور کو
ناصح نہ نصیحت کو شیداے محبت کو
روتے ہیں اس کی یاد میں ہم اپنے بخت کو
جاکر کوئی سمجھا دے ٹک اس عہد شکن کو
بنا ہی چھوڑیں ہیں آخر دو جام وجم دل کو
بس خجل کر تو چکی بارش نیسانی کو
تکلیف کار نیک نہ دو مجھ خراب کو
چمن میں مکدر نہ رکھ باغباں کو
کیا عشق نے نیست ونابود ہم کو
ہے جب سے شوق آئینہ اس خوش نگاہ کو
نہ دشت ہی میں رکھے ہے نہ کوہ پر مجھ کو
سمجھائے کوئی ہزار مجھ کو
قتل کرتا ہے تو اگر مجھ کو
کیوں نہ ہو بار تری بزم میں جاناں مجھ کو
توانائی تو کرتی ہے جدا آغوش سے مجھ کو
اٹھ گئے یاں سے اپنے ہم دم تو
نہ اٹھاتا اپنے در سے وہ سمجھ کے زشت مجھ کو
ذرا میرے دل کو جلا دیکھئے تو
کیسے کیسے خوب رو آتے ہیں میرے رو بہ رو
مت تصور کو اے مہ فشاں بے حس کرو
اس تند خو سے دوستی پیدا نہ کیجیو
کہاں صورت کماں کی اور کہاں تیری میاں ابرو
بلبل کی طرح یاں نہ گلوں کی ہوس میں بیٹھ
جوں آئینہ یہ ستم رسیدہ
جن نے لوٹا یار کے دست حنائی کا مزہ
شیخ مت وجد میں آصورت محراب کو دیکھ
گل ریزہ مژہ کا سروساماں ہے شعلہ
دم بہ دم کیوں نہ رہے شغل دم سرد کے ساتھ
یار تیرا جلوۂ نیرنگ دیکھ
بخت بد ہونے نہ دے خوں مرا اسکے ہاتھ
ہے زلف پر اس کی دست شانہ
لطف واشفاق وکرم ان نے کیا کیسا کچھ
مر رہتے ہیں در پر ترے دو چا رہمیشہ
جل گئے شمع سے ملتے ہی پر پروانہ
مارئیے سر پہ عشق کا تیشہ
اتنے لئے مانگوں ہوں اپنا دل افسردہ
دیکھیں ہیں مغاں کب ہم سوئے در میخانہ
چشم گر رونے کا تلاش ہے یہ
دیکھئے دست یار میں پیالہ
اگر چاہوں ترا ہم بزم ہوں ظالم ہوس ہے یہ
بڑھتی جاتی ہے میری اس کی چاہ
اور تو میں کیا کہوں تاثیر آہ
اس شرم گیں کے منہ پہ نہ ہر دم نگاہ رکھ
مرگیا اک پل میں بیمار نگاہ
اپنی وہ بے ثبات ہستی ہے
شیخ کو کعبے سے جو مقصود ہے
لب پر جومرے آہ غم آلود نہیں ہے
جی میں جس وقت کہ مضمون کمر آتا ہے
ہوا نہ یاد سر بحر و بر تو کیا غم ہے
اس کو تو غنچہ لب اور غنچہ دہن کہتا ہے
تو عبث بوسہ طلب اس سے یہ سالوسی ہے
اے زلف اس کے منہ سے تو تو لپٹ رہی ہے
فرہاد یہ بے فائدہ خار اشکنی ہے
نہ مرا دوست کوئی ہے نہ میرا دشمن ہے
خوش نما گر چہ مد کا ہالہ ہے
آئینہ آٹھ پہر چشم جو تر رکھتا ہے
پہلو میں سوختوں کے نے دل ہے نہ جگر ہے
دیدۂ خوں بار میرا اس قدر خوں بار ہے
سلامت پا میں لب تک آبلہ ہے
آئینہ دل میں کچھ اگر ہے
اوج فلک پہ ماہ بھی کیسا جمیل ہے
جاہ وحشم کی خواہش دولت کی آرزو ہے
سوزاں جوں شمع آستیں ہے
آج گلشن میں کس کا پر تو ہے
ہر دم میں یاں ترقی دم کو زوال ہے
ہاتھ میں ترے زلف وشانہ ہے
دیتا نہیں شراب مجھے آپ مست ہے
ہم صفیروں کیا کروں باب قفس تو بار ہے
یار جوہے بے وفا کچھ نہیں کیا ہے
سینہ ہے چاک چاک جگر داغ دار ہے
سن مرا قصہ اگر سننا تجھے منظور ہے
تو وہ حسن وجمال رکھتا ہے
آگے اس کے سنگ ہے شمشیر ہے
خلق جب سے ہم ہوئے درد والم سے کام ہےے
تو آپ یاں ہے دل سوکسی رہ گزر میں ہے
اسباب تعلق سے مزاج اس کا بری ہے
میں آ نہ سکوں اور صبا جا کے رہی ہے
یاں ہر گھڑی جو رونے کا تار بندوزہا ہے
چشم پر آب دیدۂ گرد اب اشک ہے
مست وہ بادہ نوش آتا ہے
جدائی میں تری ظالم مری کب آنکھ لگتی ہے
منظور تم کو پیارے اگر امتحان ہے
دل میں بھری ہےآگ اور آنکھوں میں آب ہے
جس طرح دل کا داغ جلتا ہے
لوح دل پر جو کوئی نقش فنا رکھتا ہے
وہ ہے اور مشق ظلم رانی ہے
جب نگہ اس کی آن پڑتی ہے
کیوں نصیبوں کو اپنے روتا ہے
شیخ جی جس بت کا بند وبندۂ درگاہ ہے
تری یاد ہے اور شب تار ہے
کوئی اس کی مژہ کو تکتا ہے
شتاب آجا اگر آنا یہاں ہے
آہ لڑ کر وہ یار جاتا ہے
حرف دوئی جو دل سے محذوف ہو گیا ہے
وہ تیرے قتل کی کیوں پوچھتا تدبیر پھرتا ہے
حسن اس کا سا ماہ میں کہاں ہے
نہ پوچھو اس دل ناکام کو کیا کام رہتا ہے
سوفتنہ اٹھاوے ہے جو ہر آن یہی ہے
تیر نگہ کا تیرے اے گل رو جب سے جگر کے پار ہو ا ہے
اس رخ صاف کے آگے جو کبھی آتا ہے
اس کا مقام کیا یہی کعبہ ودیر ہے
تیرے مشتاق کے نے زور نہ زر ہاتھ میں ہے
مرہم کا صبح وشام گلوں کو تلاش ہے
وفا کے نام سے وہ بت خفا ہوے تو بہتر ہے
ادا وناز کی جب ہاتھ میں تروار لیتا ہے
سنگ دل یہ دل نازک تو مرا شیشہ ہے
مرنے کا تعجب نہیں جینا ہی عجب ہے
چٹکی وہ اس کی صاحب تاثیر سنگ ہے
جب جدائی میں شام ہوتی ہے
جو کچھ شمع کی جسم وجاں کی طرح ہے
کچھ کام نہیں ہمیں وفا سے
مجھ کو آنکھوں نے کیا سرو چراغاں اشک سے
منہ بنائے ہوئے پھرتا ہے وہ کل سے ہم سے
کیا شمع کو ہے نسبت اس شوخ سیم بر سے
لاکھوں ہی کئے قتل گنہ گار مجھی سے
روشن ہوا یہ خانۂ دل اس کے نور سے
یار نکلا نہ تاسحر گھر سے
بکھرے بالوں میں ہے مکھڑا ترا جس خوبی سے
اگر دو چار بھی ہو جائے ہے کہیں مجھ سے
یوں مار ڈالو چاہو جس ظلم جس ستم سے
چاند مکھڑے سے ترے ہے یار کم ہر طرح سے
جینا ہو اے دہر میں تجھ بن نہ ہو سکے
دور اشک سے تپ دل پر غم نہ ہو سکے
تیری خدمت سے جدا یار نہیں ہونے کے
متروک جگر نالے ہیں مردود اثر کے
دامان کو دیکھائے کیا دن بہار کے
کشتی ہے تباہ دل شدوں کی
متفق سب ہیں کہ ہے دنیا جگہ آرام کی
نت نئے عذر ہیں نہ آنے کی
چھوڑ دی چال ظلم رانی کی
گرم غیروں سے آشنائی کی
طبیعت آج بہکی ہے ہمارے دیدۂ تر کی
نہیں دل کی ہمارے تاب اس سنگ ملامت کی
سمجھے یہ ہم جب اس کے گرفتار ہو چکے
پہنچی ہے خبر کیا اسےابروے صنم کی
چشم کس طرح نہ حیرت سے ہو پامال اس کی
سادہ رویاں جو خط نکالیں گے
لوح ہستی کو نہ لے تیغ وتیر چیریں گے
گو اپنے ہاتھ مفت ہی دونوں جہاں لگے
یہ تو ممکن نہیں آغوش میں وہ یار آئے
روز عاشق ترا آنے کو اے جانی آئے
رونے پر جب یہ چشم تر آئے
رونے پہ جس گھڑی یہ چشم پر آب آئے
اے بخت تاج وتخت سے ہے کام کیا مجھے
بھاتی نہیں زیادہ تری گفتگو مجھے
عیش کی ہے اسی سے آس مجھے
جو درد وغم سے کسی کے نہ ہوئے راہ مجھے
آگئی خوش وضع خاموشی وتنہائی مجھے
جوں گرد کار رواں نہیں آرام یاں مجھے
ناتوانی اٹھنے دیتی تھی نہ بستر سے مجھے
کھینچ شمشیر کہ دھڑ کا نہ تجھے ہے نہ مجھے
لگے کشت فلک جلنے یہ شعلہ خیز جب ہووے
یاں شمع کسی طرح سے افروخت ہووے
گر تری تیغ فلک علم ہووے
گر عشق میں یہ دیدۂ غمناک نہ ہووے
نہ آنا نہ خط نے کچھ زبانی
ناطاقتی میں اپنا یہاں کون ہے ثانی
سجدہ کریں ہیں دیکھ کے حور وپری تجھے
جو کوئی دیوے ہے جو تشبیہ وہ کرتا ہے نادانی
کھل کر جو زلف منہ پہ ترے یار گر پڑے
اس کی صبح وصال ہاتھ آئی
چشم سے غافل نہ ہوا چاہئے
نقد ہستی کو لٹانا چاہئے
آنکھ اس کی مثل دیدۂ قربانی دار ہے
کیا رہے غمناک یا خرم رہے
مرجاؤں تو بھی دل میں یہی آرزو رہے
مت ستا چشم اشک بار مجھے
ایک بوسہ جو لب سے دوگے مجھے
جب تلک یاں رہے اے مے کشو میخوار رہے
کہائے صاحب جوہر اگر چہ بے ہنر ہووے
خوشی سے کہہ دو میری بزم میں گزر نہ کرے
آنکھوں سے اٹھ گئے اس عزلت گزیں کے پردے
اس دل میں آتجلی عرفان کیا کرے
کب مجھے نامہ وپیغام سے وہ شاد کرے
گر حال پر مرے وہ ستمگر نظر کرے
گر قصد اپنے گھر کا وہ غنچہ دہن کرے
سیر اپنے عاشقوں کی جاں فشانی کیجئے
کیا فائدہ جو شکوۂ ایام کیجئے
عشق میں جان ہی سے در گزرے
الم کیا کیا نہ ہم پر گردش ایام سے گزرے
جس سر زمین پر کہ وہ سرد رواں چلے
اوروں کی سننے پائے نہ اپنی سنا چلے
آئے دو چار باتیں دل آزار کر چلے
کشور عشق میں رسوا سر بازار ہوئے
حسرت ودرد والم اندوہ وغم لے کر چلے
آہ صبح شعور شام ہوئی
یاد میں اس لب کی جب گریاں ہوئے
لب جو تم جو بے حجاب ہوئے
مشتاق میں بھی ہوں یہ دل بیقرار بھی
غیروں پہ تلطف ہے ترا بلکہ کرم بھی
زنگ کلفت سے جو فرصت پایئے
کوے بتاں میں یارو اگر جانے پایئے
دامان دل سے گرد تعلق کوجھاڑیئے
سحر کا وقت ہے اور پی چکا ہے جام کئی
مرنا تو بہتر ہے جو مرجائیے
روٹھ مت چل یار موسم روٹھ چلنے کے گئے
مردم پیشیں نہ کہہ یہ کر گئے وہ کر گئے
ہر چند رکھئے چشم تر انگشت کے تلے
اس تند خو سے جو ہیں مری آنکھ لڑ گئی
گو کہ اس باغ جہاں میں ہو بہار دوستی
روتے روتے مٹ نہ جائیں دل سے داغ دوستی
اے عشق مجھے خوار کیا کیا کیا تونے
اس جفا جو کو دل دیا تو نے
حباب آسا جو دیکھا روئے ہستی اس دوانے نے
بادہ پی بادہ غم وغصہ دیریں لے جائے
چھوڑیئے کس طرح سے مے نوشی
تاصبح جو اے دل نہ ترے ساتھ گزرتی
تیرے دیوانے بیاباں عدم کو چل بسے
اس نے جس دم مجھ سے بے تقصیر کے ٹکڑے کئے
خفگی اس سے درمیاں آئے
آرزوے ہستی موسوم اے دل کس لئے
ہے جی میں تجھ بغیر کبھی لب نہ کھولئے
اس یار جفا جو نے ہے کیا وضع نکالی
جگر سے آہ اس کے تیر کا پیکان سے نکلی
نہ برچھی ہاتھ میں لیوے نہ شمشیر وسپر باندھے
چمن میں صبح دم اس یار نے بند قبا کھولے
ممکن نہیں کہ مجھ تک وہ بت مرا اٹھ آئے
نہیں نالے کو تاگردوں رہائی
دیکھ سکتا گر فلک سب یار ہنستے بولتے
دامان وصل دوست طلب دور تابہ کے
ہے ذات اس کی جسم کی تعمیر میں چھپی
پاس کس کے تجھ کو دیکھا یار اٹھتے بیٹھتے
نوبت اپنی تو جان تک پہنچی
عیش وعشرت ہی میں کچھ ہے زندگی
کیا بدگمانیاں ہیں مری جان لیجئے
مجھے اس سیم تن سے ان دنوں صحبت نہیں رہتی
غلط ہے یہ کہ یہ ارض وسما نہ جل جائے
حشر تک کوئی صبح وشام سنے
تم سے نلنے کی سوسو فکر اے مغرور کر دیکھی
کہئے بیت اللہ یار عرش بریں ٹھہرایئے
کیوں پلا دیتا نہیں مجھ کو شراب زندگی
گو ہاتھ نہ آئیں مرے نیسان کے موتی
ہوئے صحرا نشیں تشریف لائے جس کا جی چاہے
وہ سعی قفس میں کر کہ ٹوٹے
مرا جی لے گی یا رسوا کرے گی
کرنے تجھے جتنے نالے ہمیں اتنے کرلئے
اے اشک کیوں نہ چاہیں اس دل کے داغ پانی
پڑتی ہے نظر جب کہ پرو بال پر اپنے
گردش ہی میں دیکھوں ہوں میں ایام کو اپنے
جب ہوئے تم چمن میں آن کھڑے
یاد ہیں وے دن تجھے ہم کیسے آواروں میں تھے
تمہاری صورت کو دیکھتے ہی میاں یہ صورت ہوئی ہماری
تو خوش مقال ہے کیا بات خوب رو تیری
رہی ہر ایک کو یاں جستجوئے درویشی
برسے ہے سدا ابر مژہ سینے پر اپنے
ہر چند ہوئے ہیں ترے نخچیر کے ٹکڑے
دیکھا بھی نہ ہو جس نے کبھی خواب جدائی
بر سر بام جو وہ ترک نکل کر بیٹھے
دیوانہ ہوںں مجھے نہ تساہل سے باندھیے
وہ دیوانے سے کیا کم ہے جو ایسے دل کو دل جانے
لیا دل اس خردیداری کے صدقے
ہے ہو بہ ہو ہماری صورت وصدا کی گرمی
دنیا کی جستجو تو ہم سے نہ ہو سکے گی
اس غم کدے سے کچھ نہ لگا ہاتھ ہمارے
لے گئی دل کو اس کی محبوبی
دھیان میں اسکے فنا ہو کر کوئی منہ دیکھ لے
متفرق اشعار
رباعیات
ہم دوانے ہیں سمجھتے ہی نہیں خوب وزشت
مخمسات
جب سے شب فرقت نے صورت مجھے دکھلائی
اٹھے تھے شعلۂ غم ایک روز سینے سے
مثنویات
مثنوی در ہجو ٹکاری
نقل کبوتر باز
نقل افیونی
قطعات
قطعہ تاریخ وفات میر وارث علی نالاںؔ تخلص
اے خداوند جہاں قبلۂ دارستہ داں
مر گیا جب سے میرا سید پاک
قطعہ تاریخ وفات محمد قلی مشتاقؔ تخلص
جو کوئی در گہ عالی کا تیری ہو زوار
قصائد
صاف طینت نہ کیا چاہئے گر دوں کو خیال
نقش کو غیر کے تو صفحۂ دل سے کرحک
عطا کیا ہے مجھے حق نے وہ دل روشن
یہ چرخ کہنہ تو ہے اس طرح کا صاف ضمیر
YEAR1976
CONTRIBUTORانجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی
PUBLISHER بہار اردو اکیڈمی، پٹنہ
YEAR1976
CONTRIBUTORانجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی
PUBLISHER بہار اردو اکیڈمی، پٹنہ
سرورق
فہرست
مقدمہ
زمانے کے حوادث سے نہ دیکھے منہ تباہی کا
غزلیات
ہو شرح وبیاں کس سے ترے راز نہاں کا
ہمرنگ کیوں کہوں میں اسے لالہ زار کا
جو دل کہ جلوہ گاہ ہو اس کے نور کا
موسیٰ نہ جلوہ دیکھ سکا اس کے نور کا
میں منتظر دید ترے در سے نہ سحر کا
بزم میں یک شب بھی نرمایا نہ دل گلگیر کا
دیکھے تیشہ جو کبھی تیری جفا کاری کا
گر کوئی کاٹ لے سر بھی ترے دیوانے کا
کچھ اور ہی عالم ہے ترے تفتہ جگر کا
نہیں معتقد جو ترے دید کا
دیکھ کر حسن گل عذاروں کا
اس کو فرزا نہ کہیں چوہو دوانا عشق کا
پہلو میں مرے دل ہے طلب گار کسی کا
دل پھر اہم سے یار جانی کا
حال اب تنگ ہے زمانے کا
اے بلبل لطف دیکھو اس سادہ رو کا
مزہ دکھاؤں تجھے تیری بے وفائی کا
گلہ کرے جو کوئی اس کی بیوفائی کا
جیسا کہ دل پہ زخم ہے اس کے خدنگ کا
دل میں ہر چند ہے خیال اس کا
اٹھ اے طبیب جا مجھے آرام ہو چکا
ظالم نہیں علاج کہیں اس گزار کا
ہماری آہ کے صدمے نہیں اٹھانے کا
سر اس کی تیغ سے جب تک جدا نہ ہوئے گا
جیتے ہی جوفنا کی تدبیر کر سکے گا
غیروں ہی پہ تو ستم کرے گا
مگر یوں ہی کوئی دن حسرت دیدار کھینچے گا
ہزار پیار کرے گا ہزار چاہےگا
ہم پہ سو ظلم وستم جورو جفا کیجئے گا
گر یوں ہی یہ دل درپئے آزار رہے گا
ترا داغ کیا دل سے جاتا رہے گا
مدعی کی ہے جو کچھ چال سو کیا چھوڑےگا
مہربانی سے مرے پاس اگر آئے گا
کیا فکر تو کرتا ہے اس فکر سے کیا ہوگا
جس نے تری آنکھوں کو ٹک دیکھ لیا ہوگا
مرے جب تک کہ دم میں رہے گا
اس طرف تو نہ تجھے زور نہ زر کھینچے گا
تیرے دیدار سے محروم اگر جاؤں گا
پنہاں تھا حسن یار نمودار ہو گیا
عکس رو سے اس کے گھر آئینہ خانہ ہو گیا
ہاتھ قاتل کا مرے خوں سے نگاریں ہو گیا
جب عشق میرا شہرہ ٔ آفاق ہو گیا
آیا ترا خیال خور وخوب لے گیا
وہ کماں ابرو مرا جب چیں بر ابرو ہو گیا
کس وقت خشک دیدۂ نمناک ہو گیا
بھول پڑا کیا جو ادھر آگیا
میں ہی نہ کچھ دیکھ ادھر رہ گیا
اشک کے ہم راہ دل تک بہ گیا
اس کا خدنگ دل سے جگر سے گزر گیا
تجھ سے ظالم کو اپنا یار کیا
رخسار پر ترے خط شب رنگ آگیا
صبح کی طرح جو کل چاک گریباں کیا
تونے جو ترک شیوۂ جورو جفا کیا
دے کے دل پچتانے سے ہوتا ہے کیا
وہ زمانہ کیا ہوا جو مرے گریےے میں اثر تھا
شہرت نہ تھی جب تیری کوئی اور کدھر تھا
مارنا تلوار اے خوں خوار کیا درکار تھا
جس دل برو دلدار تھا خوش چشم رفتار تھا
قیس پھرتا جو رہا دشت میں دیوانہ تھا
ثمر سے یاس نخل بیشۂ فریاد رکھتا تھا
اگر جنت یہی کچھ ہے تو کوئے یار بہتر تھا
وہ ناآشنا نکلا جو آشنا تھا
شب کسے آنا ادھر منظور تھا
جا کے دیکھا میں ارم میں تو وہ کیا تھا کہ نہ تھا
کیا ہوئے وہ دن کہ فلک دل خراب آباد تھا
جن دنوں سینہ ہمارا جلوہ گاہ نور تھا
ہر جسم حباب وار دیکھا
ہاں مدعی اپنا کسے اے یار نہ دیکھا
یار کو قاصد مرے جاکے اگر دیکھنا
غش آگیا وہ سامنے میرے جہاں ہوا
تری زلف کا عقدہ جب وا ہوا
حیرت دل سے میں اس واسطے خورسند ہوا
جب سے اس شعلہ رو سے یار ہوا
کب ترے غمزدے دیوانے کا مسکن نہ رہا
تیر مژگاں کا مرے دل میں کھٹکا ہی رہا
دامان پونچھنے سے پشیمان ہی رہا
اے جنوں نے گل ربا نے سرد گلشن میں رہا
زلفوں سے لے کے دل بھی اسی چشم کو دیا
سوز دروں نے کیا یہ دل وجاں جلا دیا
دل کی تپش نے ان دنوں سونا بھلا دیا
بام پر پی کے وہ شراب آیا
بوسے کا اگر تجھ سے طلب گار نہ ہوتا
گر لب پہ مرے نالۂ جاں کاہ نہ ہوتا
ایسا دل ہاتھ ترے آئے گا کم لیتا جا
بے تاب نے ترے کیا رہنے کو گھر بنایا
جب سے ہے اس جبیں پہ جبیں پیدا
کہتا ہے ایک عالم انصاف کر ہمارا
جہاں میں بادۂ عشرت پیا پیا نہ پیا
ہر چند خوب صورت یاں نت نیا بنایا
ہوا ریگ رواں کی طرح جس جاگہ گزر اپنا
اٹکھیلیوں سے چلنے کا تجھ کو مزہ ملا
تعلقات جہاں سے خبر نہیں رکھتا
گزر ادھر جو کبھی میرے مسیحا کرنا
دھو ڈالے اشک ہو کسی تدبیر کا لکھا
یہی کچھ تھا ہمارے صفحۂ تقدیر پر لکھا
اس ادا کا ہوں تیری دیوانہ
تنہا نہ عشق میں یہ دل ناتواں جلا
اس دل صاف سے رہتا ہے عبث یار خفا
تیری مژہ کے سامنے ہو کس کو ہے یارا
سامنے اس کے رو نہیں سکتا
کوئی اس غم کدے میں اپنی غم خوری نہیں کرتا
ان دنوں وہ ادھر نہیں آتا
اگر منظور ہو اے عشق دل کو پاک کر دینا
ناصحوں کی بات مانے نہ دیوانہ برا
پہلو میں جب سے بیٹھا ہے بیکاں دوسرا
دیکھئے روز جزا ہوئے ہے کیا حال اپنا
جب سے ہوا ہے مجھ سے وہ گل پیرہن جدا
یہ دل کب سرزنش سے عشق کی اے مہرباں ٹوٹا
جادو کیا نگہ نے پلکوں نے بان مارا
جیتے ہی جی گر ایک بھی بوسہ آہ سے انعام نہ ہوگا
مجھ سا فتادہ ہو جو ہم آغوش نقش پا
بتا یہ سنگ دل کی بزم میں توقیر ہوئی پیدا
ہمارے خانۂ دل میں نہیں ہے جاے ہوا
وہ سوختہ ہوں دیکھ جلے جان ہمارا
ہے یہی زمزمۂ مرگ سحر آخر شب
بے تاب ہی رہتا ہوں تری یاد میں ہر شب
نہ کام باغ سے ہے نہ بہار سے مطلب
کیجئے نرمی کا پیشہ شیشہ شیشہ ہے شراب
میں آپ مست ہوں کب دیکھتا ہوں سوئے شراب
جو اس کا جلوہ ہو جوں آفتاب در تہہ آب
خفا ہو اس نے لکھا مجھ کو پھر جواب شتاب
تھم جائے دیکھ کر تجھے جوئے چمن میں آپ
کہتے کہتے مفت تھکتی ہے زبان عندلیب
عیش سے بے بہرہ ہیں اور درد غم سے بے نصیب
اپنی بصارت کہاں اور کہاں روے دوست
ملنے کو تو ملیں گے تجھے یوں ہزار دوست
شراب شوق سے سرسبز تورہ تاک کی صورت
کن نے دیکھی نہ تمہارے کف پا کی صورت
نہ شکل شیشہ آتی ہے نظر نے جام کی صورت
دے جان تلک اپنی پرستار محبت
نہ ہوتے ہم خریدار محبت
کہتے ہیں دل کو اہل دلاں جائے معروف
مطق نہیں احوال کے اظہار کی طاقت
مجھے دل ہی کے آستانے کی دولت
رکھ ناز سے نہ آنکھوں پہ اے حور پشت دست
تم تو رہتے ہو مرے در پےآزار عبث
اشک گرم آنکھوں سے تاصبح رہے جاری رات
غیروں کو دیکھ دیکھ تری انجمن کے بیچ
جو نہ گزرا نہ ہوا نوح کے طوفاں کے بیچ
اس کے بحر حسن میں ابرد ہے جوں شمشیر موج
اس زلف گرہ گیر کو ٹک دیکھے اگر موج
عاشق کی دل پسند ہو کیوں کر قمر کی طرح
کچھ کہی جاتی نہیں مژگان دل بر کی طرح
گو دھجیاں کر اپنا گریباں اڑائے صبح
نہ ملتجی کبھی ساقی سے ہوں برائے قدح
کرے ہے جیب کو جیسا یہ چشم گریاں سرخ
مہ کو سو چشمہ خورشید سے دھوئے خورشید
دو شیریں لب نہ ہوئے گا کبھو تلخ
نقد وفا سے تو ہمیں اے یار کر خرید
جو میری یہ مژۂ اشک بار ہے موجود
قبا کا اپنی تو کھولے اگر بند
ہے مرے دل کا داغ سرخ وسفید
ہر بے زبان اہل زباں سے ہے سر بلند
یارب کہیں جلد آے قاصد
ہم ہی کرتے نہیں زلفوں کو تری یار پسند
لکھا خط اسے لے قلم اور کاغذ
بے درد طبیب مت دوا کر
اہل جہاں کے ملنے سے ہم احتراز کر
لائی ہے تجھ تلک اجل اے یار کھینچ کر
منت تاثیر اے آہ سحر گاہی نہ کر
اہل ہمت شاد ہوتے ہیں گدا کو دیکھ کر
بار بار اس کی طرف دیکھا نہ کر
آہ وفغاں سے اپنی زباں آشنا نہ کر
اے چرخ بے کسی پہ ہماری نظر نہ کر
فصل گل آئی ہے تو باب قفس باز نہ کر
صد آفریں ہے یار فغافل شعار پر
چھا جائے اگر دود دل تنگ بھا پر
ہم تو مرتے ہیں اس گدائی پر
گرٹک متوجہ ہو وہ مے نوش فلک پر
کیا کیا ستم نہ تو نے کئے میری جان پر
زلف اس کی جو کھلی پڑی منہ پر
نہ ڈر قاصد گر اکر اشک بے تاثیر کاغذپر
ہے تن کا ہیدہ رشک سایۂ مژگان مور
رخ یہ چاہے تھا کہ دل کو کرے تسخیر بہ زور
پیدا ہوا ہے دل میںنئے سر سے درد پھر
شیخ جی تم نہ کہو خوف ورجا سے بہتر
غنچے کو دیکھ دل نہ لے احسان روزگار
کیوں حیا سے تو نکلتا نہیں گھر سے باہر
اے طبیبوں تمہاری کیا تقصیر
کی ہے ترے دیوانے نے تقصیر سی تقصیر
جہاں میں کس طرح سب ہوں برابر
حدیث مستی ورندی پہ گر ہو گوش خاکستر
ہر چند مثل خضر یہاں ہو قرار عمر
لطف واشفاق ترا مجھ کو تو کیا ہے درکار
بے مے وہ معشوق جب گہر آئے ابر
رہنا ہے خوف مجھ کو مری جان پیشتر
ہو اگر ہاتھ مرا چاک گریباں سے دور
نہ کر آزردہ بار کی خاطر
زیارت گاہ عالم ہے ترادر
زلفوں میں کیوں نہ ہو یہ دل زار بیقرار
دل صاف اپنا داغوں سے مکدر ہو گیاآخر
میں مرگیا پہ ہے وہی آہ وفغاں ہنوز
دیدار کی ترے نہ گئی آرزو ہنوز
ہے اس کے دل میں صنع الٰہی کا ڈر ہنوز
ہمارے حال پہ اس کی نظر نہیں ہر گز
کیوں نہ اشک تہ مژگاں ہو اثر سے لب ریز
ترے عارض پہ خط نکلا ہے کیا سبز
دل میں یوں رہتے ہیں اسکے تیر کے پیکاں عزیز
ہیں داغ مرے جزوبدن جوں پر طاؤس
زلف رکھ دل کو نہ چشم سیہ یار کے پاس
کبھی نہ دے گئے اک زخم یاد گار افسوس
کیا کریں گے یاد اے صیاد آرام قفس
ہے دل مرا اے دل برہم شیشہ دہم آتش
دل ہے کیا سینۂ سوزاں میں قرین آتش
سینے میں غم عشق نے کی مشتعل آتش
اگر داغ جگر اپنا دکھاؤں آب ہو آتش
ہوئے نہ میرے دل سے لب یار فراموش
نے دولت آرزو ہے نہ دنیا نہ دیں غرض
کیوں کر نہ گرد باد کو ہوئے ہواے رقص
صاف طینت سے کریں ہیں شعلہ رو کم اختلاط
اگرعارض ہو اس آئینہ روکا سبزہ زار خط
منظور ہو جو سینہ سوزاں کی احتیاط
نہ اس کے لطف سے خوش نے کرم سے ہے محفوظ
ہمارے اس کے جو آپس میں تھے ربط
کر سیر باغ دل جوہر آہنگ ہے وسیع
اب عبادت کو مری تو نے جو کی ہے تصدیق
کروں نہ دولت دنیا کی زینہار طمع
ہر شب جو کھیلتی ہے یاں اپنی جان پر شمع
ہوئے میرا مہ تاباں جو تماشائی شمع
ہوئے ہیں دل خم ابرو میں تیرے جاناں جمع
رکھتا نہیں میں لالہ صفت دل میں چار داغ
خوف کیا ہے گو صبا ہو دست انداز چراغ
کروں میں دید سے قطع نظر دروغ دروغ
رات بے تابانہ ہو کر صدمئے فرق چراغ
اس دل صد چاک میں یوں جلوہ گر ہے اس کا داغ
زخمی جگر کے دل میں ہے کیاآرزوئے تیغ
شاید گزر ہواہے ترا آج سوئے زلف
اس کے رخسار پر کہاں ہے زلف
کیوں کہوں قامت کو تیرے اے بت رخسار الفت
مائل ہوں کب پناہ کی تدبیر کی طرف
کرتا ہے کون مجھ سے گنہ گار کی طرف
کیا شمع ہے مبتلائے عاشق
وہ شگفتہ دل جو تھا یک عمر گلشن کا حریف
ہنگامۂ یک محشر رکھتا ہے سر عاشق
کس طرح کم ہوئے یہ سودائے عشق
مارا ہوا تمہارا تو عالم ہے زیر خاک
چمن کی سیر کا کیا خاک ہو شوق
اس کے دیار میں نہیں ملتا نشان اشک
رہنے نہ دے گی یہ مژۂ اشک بار خشک
ہم رہے اک عمر مہمان فلک
گو سونپے مجھ کو گردش افلاک زیر خاک
تیرے عشاقوں میں ہیں اہل جگر ایک سے ایک
یہ دم بدم کا روٹھنا اے یار کب تلک
ہے آفتاب اور مرے دل کا داغ ایک
یاد کر تیرے لب مے گوں کا اے جاناں نمک
یوں ہے عارض پہ خط زلف پریشاں نزدیک
گر بھڑک اٹھے ہماری جان غم پرور سے آگ
وہ بھری ہے مرے جگر میں آگ
چشم تر لب نمشک ہیں اور دل پریشاں زرد رنگ
چہرے کا میرے کیوں نہ مشابہ ہو زر سے رنگ
ہر چند میرا دل نہیں اے بد دماغ تنگ
کیوں نہ ہوں ہم نفساں اپنے دل تنگ سے تنگ
معدوم ہوں یہی تھی سدا آرزوے دل
اشک سے ہوئے نہ افسردہ دل تنگ میں آگ
روشن ہے آفتاب کے مانند داغ دل
کہتے ہیں سب سن کے آہ سر دل
لے بھی کہیں شتاب جو لینا ہو یار دل
زلف کا مبتلا ہوا ہے دل
نہیں معلوم وہ کب لے گیا دل
بلبلو کرتی ہو کس واسطے عمل برسر گل
منت کش چمن نہ ہوں بلبل برائے گل
لعل لب سے ترے شراب خجل
دور داماں نے تیرے نہ لیا خاک کے مول
کبھی اس چشم پرفن سے یہ دل ہوتا نہ تھا غافل
دام غفلت ہی میں دن رات گرفتار ہیں ہم
گلزار محبت میں نہ پھولے نہ پھلے ہم
تری طہارت گو شیخ کہہ تو کہاں سے لائیں اک آب جو ہم
گو کہ محتاج ہیں گدا ہیں ہم
تجھ سے ہی کیا وفا کی نہیں خوش نگاہ چشم
ہو گیا ابر دو بدو اے چشم
غافل اس چشم سے نہ رہ اے چشم
گو کہ تو ملنے لگا اے ماہ کم
گرے ہیں اشک مرے دیدۂ پر آب سے کم
عرق آزردہ مکھڑے پر نظر گر ٹک کرے شبنم
اس کمر کے خیال میں ہیں ہم
مونس دل ہوئے ہے ایک ہی دم شادی وغم
آئے ہو سو طرح کا گر اس دل پر غم میں غم
یوں غنچہ لب سبھی ہیں کرتے ہیں سب تبسم
مجھ پر بتاں میں کرم نہ کریں یا کرم کریں
بتاں ہزار نہ لیویں ہزار ناز کریں
سوز دل سے تری محفل میں جلا جاتا ہوں
ہر چند ہم پہ جوروجفا روز وشب کریں
یار کے تیر کانشانہ ہوں
یارب نہ بگوں ہوں نہ میں ریگ رواں ہوں
خراب بادۂ شوق لباں سے گوں ہوں
ہر چند ظالموں کا اے چرخ آشنا ہوں
کافر ہوں گر کسی کو دیوانہ جانتا ہوں
کہوں کیا کون ہوں میں اور کیا ہوں
میاں یہ یاد رکھیو کہہ چلا ہوں
یاد جب تجھ کو یار کرتا ہوں
تم نے تو پھیر دیا دل میں لئے جاتا ہوں
جلا بلا ہوں گرفتار حال اپنا ہوں
تجھے اے شعلہ رو کب چھوڑتا ہوں
نالۂ دل کو تو کوتاہی نہیں
سیر سے اس کو کوئی محرم نہیں
تجھ سوا اور سمت دیکھا ہی نہیں
ہے کون سی جگہ یہ ستم کش جہاں نہیں
بہ حسن وخلق تو کسی انسان میں نہیں
جس کے دل میں خواہش دنیا نہیں
کب میں اس کی بزم میں جاتا نہیں
جب نہ جز جوروجفا کچھ اسے منظور نہیں
کون سی جا ہے وہ جلوہ گہ یار نہیں
خوشی سے گرچہ ہمیں اک دم اتصال نہیں
کون زلفوں میں تری یار گرفتار نہیں
بات کوئی دم کی ہے جینے کی مجھے آس نہیں
دیا دین ودل تک رکھا کچھ نہیں
کر قتل شوق سے مجھے خوف وخطر نہیں
جیب وداماں نہیں دیدہ گریاں نہیں
رہتا ہے نت خیال تر ادیکھتے نہیں
تجھ سے جو تشنۂ دیدار ملا چاہتے ہیں
جفا وجور کرتے ہیں بتاں آزار دیتے ہیں
چشم خونخوار ابروے خمدار دونوں ایک ہیں
جفا وجور کے مشتاق ہیں ہم تجھ پر مرتے ہیں
اگر چہ خنجر تر کا نہ خوں آشام ہوتے ہیں
جو تیرے سامنےآئے ہیں سوکم ٹھہرے ہیں
کیا ہوا گر کوئی دم عشق میں ہم جیتے ہیں
لذت وصل تصور میں اٹھا رہتے ہیں
کشور زلف میں جو بستے ہیں
نوخطاں منہ سے مرے منہ جو ملا دیتے ہیں
لے چلے ہیں دل دریں درپے جاں رہتے ہیں
جس کی محفل میں فرشتوں سے بھی پر جلتے ہیں
کہاں وضع لطف وکرم جانتے ہیں
دنیا میں زندگی سے بیزار ہیں تو ہم ہیں
چمن میں آئی ہے فصل بہار سنتے ہیں
جو تیری تیغ ستم کھائے ہوئے بیٹھے ہیں
عمر عزیز گزرے ہے رنج وملال میں
ہم نہ کچھ بہر نام روتے ہیں
کریں ہیں جور کا تیرے ہی شکوہ یار آپس میں
جلوہ گر دل ہے دیدۂ نم میں
ہوا ہے گھر بتاں کا یہ دل دیوانہ پہلو میں
ہلنے پائے نہ تجھ سے دنیا میں
تنہائی سے ہے صحبت دن رات جدائی میں
تجلی عشق کی جب سے ہوئی ہے جلوہ گر دل میں
رہتا ہوں اس کے سایہ تیغ نگاہ میں
یہ دل جو بغل میں خیال آفریں ہے
مصور ڈال دیوےے گر تری تصویر پانی میں
اس کا ن ملاحت کی اگر یاد نہیں ہے
الٰہی کیوں پھنسا یا ہم کو دام آشنائی میں
ہوا رخصت طلب جب بیٹھے ہی یار پہلو میں
آتا ہے مجھے لطف چمن یاد قفس میں
نظر آتا ہے ساقی جلوۂ نیرنگ شیشے میں
یار محفوظ ہے رقیبوں سے
کئی اک لاگ ہے جس سے لگی ہےآگ پانی میں
آگے اس کے ڈبا دیدۂ تر پانی میں
مانند جام جسم ہے سب کچھ مری نظر میں
کام کیا مجھ کو ربط عالم سے
ہر چند کو دیکھے ہے وہ پیار کی آنکھوں سے
ہے کیوں کر نہ ساقی دخت رز دل گیر شیشے میں
سخت رنجور ہوں اور تجھ سے بہت دور ہوں میں
صفا ذاتی ہے اے شیشہ گراں ہر چند شیشے میں
مقدور کیا جو تجھ سے میں ردو بدل کروں
یہ تمنا ہے کہ قرب آئینہ سا پیدا کروں
ہم راہ سیل اشک پھرے میں جہاں پھروں
ہم سفیرو کیا کروں جس وقت گھبراتا ہوں میں
تیرے ڈر سے کب میں جاتا ہوں کہیں
کیا کروں کچھ فکر ہو سکتی نہیں
ان نے پہلے ہی پہل پی ہے شراب کے دن
کیوں نہ خوش آئے ترے عشق میں ویرانہ جاں
موتی دامان مژہ سے کیوں نہ روے آستیں
جب روؤں یاد کر تیرے کوچے کی سرزمیں
تجھ سے ہم بزم ہوں نصیب کہاں
بے یار اس چمن میں کہہ وہ نہ آئے باراں
یاجان کی ہیں گاہک یا دل کی چو آنکھیں
بھاتا ہے تیرے آگے کب مجھ کو یار گلشن
باتیں جو کچھ تھیں ننگ وناموس کی ڈبوئیں
ہے ان دنوں شاید نظر یار پریشاں
عشق ہستی سوز آجابھی کہیں
کیا بات تیرے حسن کی اے افتخار حسن
میرے پہلو میں تڑپتا ہے پڑا ان روزوں
ہیں دل جگر ہمارے یہ مہرباں دونوں
سنے ہے کون کرتے تجھ سے ہم بیاں تجھ بن
جب تک اس میں غم دنیاہے دل شاد نہ ہو
اے رفو گر تو رفو کرکے پشیماں نہ ہو
تیری محفل کی ہو ااے یار سر میں گر نہ ہو
دل جو بیتاب وبیقرار نہ ہو
نے اگر تجھ سے دودمند نہ ہو
اہل نیاز سے تری خجل نہ ہو
عشاق کے نصیب میں سیر چمن نہ ہو
پریشاں اے زلف بہر دم نہ ہو
اگر بیتابی دل سے لکھوں کچھ اس کو مضطر ہو
یہ زیست طوف دل ہی میں یارب تمام ہو
اگر ایک دم تو ہم آغوش ہو
یہ جائے خار تمام اس میں غنچہ وگل ہو
اس تشنہ کے جو قتل کا اس کا ارادہ ہو
گو کہ عیش ابد میسر ہو
راغب نہ ہو طبیعت گر حور رو بہ رو ہو
جبہہ سائی سے ترے در کی نہ یہ دل سیر ہو
ہے آرزو بغل میں دوست شراب ہو
آئے ہے یار دیکھئے کیا ہو
میں نے پوچھا خوش مرے آنے سے ہو
چاہے بہتیرا کوئی پر کیا ہو
اور کچھ ہو یا نہ ہو یہ کام ہو
مسکرانے پر ترے دیکھے جو حیراں غنچے کو
لے جائیے جو ساتھ دل بیقرار کو
آگ دے دوجہاں کے حاصل کو
ہے میسر دم بہ دم دیدار یار آئینے کو
چھوڑ دے مار لات دنیا کو
یوں پاس بٹھانے کو بٹھا یار کسی کو
کیا سر سبز رونے نے مرے دشت وبیاباں کو
ادھر زنداں کی الفت کھینچتی ہے اس دوانے کو
قاتل زرا تو کہہ دے یہ تیغ نگاہ کو
پیری میں بھلا ڈھونڈیے کیا بخت جواں کو
دیکھتے ہی اس رخ پرنور کو
ناصح نہ نصیحت کو شیداے محبت کو
روتے ہیں اس کی یاد میں ہم اپنے بخت کو
جاکر کوئی سمجھا دے ٹک اس عہد شکن کو
بنا ہی چھوڑیں ہیں آخر دو جام وجم دل کو
بس خجل کر تو چکی بارش نیسانی کو
تکلیف کار نیک نہ دو مجھ خراب کو
چمن میں مکدر نہ رکھ باغباں کو
کیا عشق نے نیست ونابود ہم کو
ہے جب سے شوق آئینہ اس خوش نگاہ کو
نہ دشت ہی میں رکھے ہے نہ کوہ پر مجھ کو
سمجھائے کوئی ہزار مجھ کو
قتل کرتا ہے تو اگر مجھ کو
کیوں نہ ہو بار تری بزم میں جاناں مجھ کو
توانائی تو کرتی ہے جدا آغوش سے مجھ کو
اٹھ گئے یاں سے اپنے ہم دم تو
نہ اٹھاتا اپنے در سے وہ سمجھ کے زشت مجھ کو
ذرا میرے دل کو جلا دیکھئے تو
کیسے کیسے خوب رو آتے ہیں میرے رو بہ رو
مت تصور کو اے مہ فشاں بے حس کرو
اس تند خو سے دوستی پیدا نہ کیجیو
کہاں صورت کماں کی اور کہاں تیری میاں ابرو
بلبل کی طرح یاں نہ گلوں کی ہوس میں بیٹھ
جوں آئینہ یہ ستم رسیدہ
جن نے لوٹا یار کے دست حنائی کا مزہ
شیخ مت وجد میں آصورت محراب کو دیکھ
گل ریزہ مژہ کا سروساماں ہے شعلہ
دم بہ دم کیوں نہ رہے شغل دم سرد کے ساتھ
یار تیرا جلوۂ نیرنگ دیکھ
بخت بد ہونے نہ دے خوں مرا اسکے ہاتھ
ہے زلف پر اس کی دست شانہ
لطف واشفاق وکرم ان نے کیا کیسا کچھ
مر رہتے ہیں در پر ترے دو چا رہمیشہ
جل گئے شمع سے ملتے ہی پر پروانہ
مارئیے سر پہ عشق کا تیشہ
اتنے لئے مانگوں ہوں اپنا دل افسردہ
دیکھیں ہیں مغاں کب ہم سوئے در میخانہ
چشم گر رونے کا تلاش ہے یہ
دیکھئے دست یار میں پیالہ
اگر چاہوں ترا ہم بزم ہوں ظالم ہوس ہے یہ
بڑھتی جاتی ہے میری اس کی چاہ
اور تو میں کیا کہوں تاثیر آہ
اس شرم گیں کے منہ پہ نہ ہر دم نگاہ رکھ
مرگیا اک پل میں بیمار نگاہ
اپنی وہ بے ثبات ہستی ہے
شیخ کو کعبے سے جو مقصود ہے
لب پر جومرے آہ غم آلود نہیں ہے
جی میں جس وقت کہ مضمون کمر آتا ہے
ہوا نہ یاد سر بحر و بر تو کیا غم ہے
اس کو تو غنچہ لب اور غنچہ دہن کہتا ہے
تو عبث بوسہ طلب اس سے یہ سالوسی ہے
اے زلف اس کے منہ سے تو تو لپٹ رہی ہے
فرہاد یہ بے فائدہ خار اشکنی ہے
نہ مرا دوست کوئی ہے نہ میرا دشمن ہے
خوش نما گر چہ مد کا ہالہ ہے
آئینہ آٹھ پہر چشم جو تر رکھتا ہے