aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
اردو کے مشہور مزاح نگار جناب دلاور فگار 8 جولائی 1929ء کو ہندوستان کے مشہور و معروف مردم خیز شہر بدایوں میں پیدا ہوئے، جس کی مٹی نے بڑی بڑی نامی گرامی شخصیات کو پیدا کیا ہے۔انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے شہر بدایوں ہی میں حاصل کی اور بعدازاں آگرہ یونیورسٹی سے ایم اے (اردو) کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے ایم اے (انگریزی) اور ایم اے (اکنامکس) کی ڈگریاں بھی حاصل کیں۔ اپنے کیرئیر کا آغاز انہوں نے ہندوستان میں درس و تدریس سے کیا اور تقسیم ہند کے بعد 1968ء میں کراچی چلے گئے۔ وہاں عبداﷲ ہارون کالج میں بحیثیت لیکچرار کچھ عرصے تک اردو کے استاد رہے، جہاں فیض صاحب پرنسپل ہوا کرتے تھے۔درس و تدریس کے علاوہ وہ کچھ عدصہ اسسٹینٹ ڈایریکٹر، ٹاؤن پلاننگ کے طور پر کے۔ڈی۔اے۔ سے بھی وابستہ رہے۔
فگار صاحب نے شعر گوئی کا آغاز 14 برس کی عمر میں 1942ء میں کیا۔ بہت جلد انہیں مولوی جام نوائی بدایونی اور مولانا جامی بدایونی جیسے اساتذہ کی صحبت اور رہنمائی میسر آئی جس نے ان کی صلاحیتوں کو نکھار دیا۔ فگار صاحب کو صرف شاعری پر ہی نہیں نثر پر بھی عبور حاصل تھا مگر ان کی شہرت ایک مزاح گو شاعر کے طور پر ہی ہوئی۔ پہلی مرتبہ جب انھوں نے دہلی میں اپنی نظم ’’شاعراعظم‘‘ پڑھ کر سنائی تو ان کی مزاح گوئی کی دھوم مچ گئی اور پھر وہ وقت بھی آیا جب انھیں ’’شہنشاہ ظرافت‘‘ اور ’’اکبر ثانی‘‘ جیسے خطابات سے نوازا گیا۔
دلاور فگار کے مزاحیہ شعری مجموعوں میں "انگلیاں فگار اپنی"، "ستم ظریفیاں"، "آداب عرض"، "شامت اعمال"، "مطلع عرض ہے"، "خدا جھوٹ نہ بلوائے"، "چراغ خنداں" اور "کہا سنا معاف کرنا" شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے جمی کارٹر کی تصنیف کا اردو ترجمہ خوب تر "کہاں کے نام سے" کیا تھا۔ 25 جنوری 1998ء کو دلاور فگار اس دیارِ فانی سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئے۔ انھیں کراچی کے پاپوش نگر کے قبرستان میں آسودہء خاک کیا گیا۔ حکومت پاکستان نے ان کی وفات کے بعد انہیں صدارتی تمغہ برائے "حسن کارکردگی"(Pride of performance) عطا کیا تھا۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets