aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
مجازکی شاعری کا آغاز ایک ایسے زمانے میں ہوا جب ہندوستان نئی منزلوں کے خوابوں کو کلیجے سے لگائے ہوئے نئے راستوں کی تلاش میں سرگرداں تھا۔ اور نئے حقائق اپنی تمام پیچیدگیوں اور امکانات کے ساتھ ابھر کر سامنے آرہے تھے ملک کی عام زندگی تیزی کے ساتھ ایک خاموش انقلاب سے ہمکنار ہو رہی تھی۔ ملک کی دوسری زبانوں کی طرح اردو ادب بھی بدلے ہوئے ان حالات کا آئینہ دار تھا۔ چنانچہ مجازشباب اور انقلاب کے شاعر ہیں۔ اور یہی دونوں ان کی شاعری کے خاص موضوع ہیں جہاں تک شباب کا تعلق ہے جب تک ان کے ہاتھ میں ساز اور ہونٹوں پر گیت لہراتے رہے وہ زندگی کی اس منزل کے گیت گاتے رہے ان کی شاعری میں انقلاب ہمیشہ حاوی رہا ان کی شاعری ابتدا سے آخر تک اس نصب العین کا احترام کرتی رہی وہ شاعر کی حیثیت سے زندگی کے آخری زمانہ تک مرد انقلاب رہےان کے کلام میں انقلابی جوش ہونے کے باوجود کسی حد تک توازن برقرار ہے۔ان کی شاعری میں باقاعدہ نہ صرف کردارنگاری ہے بلکہ مکالمہ نگاری ، منظرنگاری ، کلائمکس اور اختتام بھی موجود ہے ان کا شعری مجموعہ “آہنگ‘‘ پہلا ترقی پسند مجموعہ تھا ، جو 1938ء میں لکھنؤ سے شائع ہوا ،مجاز کے اسی مجموعہ میں ،ان کی سب سے بہترین نظم’آوارہ‘ ہے۔
اسرارالحق مجازؔ بیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں اردو شاعری کے افق پر اک وقوعہ (phenomenon) بن کر طلوع ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے اپنی دلنواز شخصیت اور اپنے لب و لہجہ کی تازگی اور غنائیت کے سبب اپنے وقت کے نوجوانوں کے دل و دماغ پر چھا گئے۔ فیض احمد فیض،سردار جعفری،مخدوم محی الدین جذبی،اور ساحر لدھیانوی جیسے شعراء ان کے ہمعصر ہی نہیں ہم پیالہ اور ہم نوالہ دوست بھی تھے۔ لیکن جس زمانہ میں مجازؔ کی شاعری اپنے شباب پر تھی،ان کی شہرت اور مقبولیت کے سامنے کسی کا چراغ نہیں جلتا تھا۔ مجازؔ کی شاعری کے عہد شباب میں ان کی نظم "آوارہ" فیض کی "مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ" اور ساحر کی "تاج محل" سے زیادہ مشہور و مقبول تھی۔مجاز ؔکی ایک انفرادیت یہ بھی تھی کہ معمولی شکل و صورت کے باوجود ان کے پرستاروں میں لڑکوں سے زیادہ لڑکیاں تھیں ۔ عصمت چغتائی کے بقول ان کےعلی گڑھ کے دنوں میں ہوسٹل کی لڑکیاں ان کے لئے آپس میں قرعہ اندازی کرتی تھیں اور ان کے مجموعہ کلام :آہنگ کو سینہ سے لگا کر سوتی تھیں۔لیکن بدقسمتی سے مجاز ؔخود کو سنبھال نہ سکے اور اختر شیرانی کی روش پر چل نکلے۔ یعنی انھوں نےاتنی شراب پی کہ شراب ان کوہی پی گئی۔ اختر شیرانی ان سے 6 سال پہلے پیدا ہوئے اور سات سال پہلے مر گئے،یعنی دونوں نے کم و بیش برابر زندگی پائی لیکن اختر نثر و نظم میں جتنا متنوع سرمایہ چھوڑ گئے ،مجاز ؔبلحاظ کمیت اس سے بہت پیچھے رہ گئے۔جوش ملیح آبادی نے یادوں کی برات میں ان کے بارے میں لکھا ہے کہ مجازؔ بے پناہ صلاحیتوں کے مالک تھے لیکن وہ اپنی صرف ایک چوتھائی صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکے۔ مجازؔ کی باقاعدہ موت تو 1955 میں ہوئی لیکن وہ دیوانگی کے تین دوروں کو جھیلتے ہوئے اس سے کئی سال پہلے ہی مر چکے تھے۔ مجازؔ اردو شاعری میں اک آندھی بن کر اٹھے تھے اور آندھیاں زیادہ دیر نہیں ٹھہرتیں۔
مجازؔ اودھ کے مشہور قصبہ ردولی کے اک زمیندار گھرانے میں 1911 ء میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سراج الحق اس وقت کے دوسرے زمینداروں اور تعلقداروں کے برعکس بہت روشن خیال تھے اور اس زمانہ میں، جب ان کے طبقہ کے لوگ انگریزی تعلیم ،کو غیر ضروری سمجھتے تھے، اعلی تعلیم حاصل کی اور بڑی زمینداری کے باوجود سرکاری ملازمت کی۔ مجاز ؔکو بچپن میں بہت لاڈ پیار سے پالا گیا۔ابتدائی تعلیم انھوں نے ردولی کے اک اسکول میں حاصل کی اس کے بعد وہ لکھنؤ چلے گئے جہاں ان کے والد محکمہء رجسٹریشن میں ملازم تھے۔ مجازؔ نے میٹرک لکھنؤ کے امین آباد اسکول سے پاس کیا۔اس وقت تک پڑھنے میں اچھے تھے۔پھر اسی زمانہ میں والد کا تبادلہ آگرہ ہو گیا۔یہیں سے مجاز ؔکی زندگی کا پہلا موڑ شروع ہوا۔اول تو مزاج کے خلاف ان کو انجینئر بنانے کے لئے ریاضی اور طبیعات جیسے خشک مضامین دلا کر سینٹ جانس کالج میں داخل کرا دیا گیا۔ جہاں جذبی بھی پڑھتے تھے اور پڑوس ملا فانی بدایونی کا۔ اس پر طرہ یہ کہ کچھ ہی دنوں بعد والد کا تبادلہ آگرہ سے علی گڑھ ہو گیا۔ وہ مجازؔ کو تعلیم مکمل کرنے کی غرض سے آگرہ میں چھوڑ کر علی گڑھ چلے گئے۔ درسی کتابوں سے بے رغبتی،آگرہ کا شاعرانہ ماحول اور والدین کی نگرانی ختم ہو جانا ۔۔۔ نتیجہ وہی نکلا جو نکلنا چاہئے تھا ۔اسرارالحق نے شہید تخلص کے ساتھ شاعری شروع کر دی اور فانی سے اصلاح لینے لگے۔جذبی اس زمانہ میں ملال تخلص کرتے تھے۔ مجازؔ شروع سے ہی شاعری میں "مذاق طرب آگیں" کے مالک تھے ۔فانی ان کے لئے مناسب استاد نہیں تھے اور خود انھوں نےمجازؔ کو مشورہ دیا کہ وہ ان سے اصلاح نہ لیا کریں۔ آگرہ کی یہ ابتدائی شاعری آگرہ میں ہی ختم ہو گئی امتحان میں فیل ہوئے اور علی گرھ والدین کے پاس چلے گئے یہاں سے ان کی زندگی کا دوسرا موڑ شروع ہوتا ہے۔۔ اس وقت علی گڑھ میں مستقبل کے ناموروں کا جمگھٹ تھا۔ یہ سب لوگ آگے چل کر اپنے اپنے میدانوں میں آفتاب و ماہتاب بن کر چمکے۔نثر میں منٹو اور عصمت چغتائی،تنقید میں آل احمد سرور اور شاعری میں مجاز، جذبی، سردار جعفری،مخدوم، جان نثار اختر اور بہت سے دوسرے۔ زمانہ کروٹ لے چکا تھا ۔ ملک کی آزادی کی تحریک زور پکڑ رہی تھی۔روس کے انقلاب نے نوجوانوں کے دل و دماغ کو خوش رنگ خوابوں سے بھر دیا تھا۔ اب شاعری کے تین استعارے تھے ۔۔شمشیر ،ساز اور جام! یہاں تک کہ جگر جیسے رند عاشق مزاج اور کلاسیکی شاعر نے بھی اعلان کر دیا تھا۔۔
"کبھی میں بھی تھا شاہد در بغل توبہ شکن میکش
مگر بننا ہے اب خنجر بکف ساغر شکن ساقی"
مختلف شاعروں کی شاعری میں شمشیر ساز اور جام کی آمیزش مختلف تھی، مجازؔ کے یہاں یہ ترتیب ساز جام شمشیر کی شکل میں قائم ہوئی۔ کلام میں شیرینی اور نغمگی کا جو امتزاج مجازؔ نے پیش کیا وہ اپنی جگہ منفرد اور لاثانی تھا ۔نتیجہ یہ تھا وہ سب کی آنکھوں کا تارہ بن گئے۔ علی گڑھ سے بی اے کرنے کے بعد ایم اے میں داخلہ لیا لیکن اسی زمانہ میں آل انڈیا ریڈیو میں کچھ جگہیں نکلیں۔ کام مزاج کے مطابق تھا، مجازؔ ریڈیو کے رسالہ "آواز" کے نائب مدیر بن گئے۔ ریڈیو کی ملازمت زیادہ دنوں تک نہیں چلی اور وہ دفتری سیاست (جو علاقائی سیاست بھی تھی) کا شکار ہو کر بیکار ہو گئے۔ کہتے ہیں کہ مصیبت تنہا نہیں آتی چنانچہ وہ اک رئیس اور مشہور مجاہد آزادی کی فتنۂ روزگار بیٹی سے، جو خیر سے ایک بھاری بھرکم شوہر کی بھی مالک تھیں ،عشق کر بیٹھے۔ یہ عشق ان محترمہ کے لئے اک کھیل تھا لیکن اس نے مجازؔ کی ذہنی ،جذباتی اور جسمانی تباہی کا دروازہ کھول دیا۔ یہ ان کی زندگی کا تیسرا موڑ تھا جہاں سے ان کی شراب نوشی بڑھی۔ بیروزگاری اور عشق کی ناکامی سے ٹوٹ پھوٹ کر مجازؔ لکھنؤ واپس چلے گئے۔ یہ واقعہ 1936ء کا ہے۔ دہلی سے روح کا جو ناسور لے کر گئے تھے وہ اندر ہی اندر پھیلتا رہا اور 1940ء میں پہلے نروس بریک ڈاؤن کی شکل میں پھوٹ بہا۔ اب ان کے پاس ایک ہی موضوع تھا فلاں لڑکی مجھ سے شادی کرنا چاہتی ہے اور رقیب روسیاہ مجھے زہر دینے کی فکر میں ہے۔ چار چھہ مہینے یہ کیفیت رہی ۔دوا علاج اور تبدیلی آب و ہوا کے لئے نینی تال بھیجے جانے کے بعد طبیعت بحال ہو گئی۔ کچھ دنوںممبئی میں محکمہء اطلاعات میں کام کیا پھر لکھنؤ واپس آ گئے۔کچھ دنوں رسالوں پرچم اور نیا ادب کی ادارت کی لیکن یہ وقت گزاری کا مشغلہ تھا روزگار کا نہیں۔ لکھنؤ کے ان کے احباب منتشر ہو گئے تھے۔آخر دوبارہ دہلی گئے اور ہارڈنگ لائبریری میں اسسٹنٹ لائبریرین بن گئے۔اب ان کی شراب نوشی بہت زیادہ بڑھ گئی تھی اور گھٹیا لوگوں میں اٹھنے بیٹھنے لگے تھے۔ 1945 میں ان پر دیوانگی کا دوسرا دورہ پڑا اس بار دیوانگی کی نوعیت یہ تھی کہ اپنی عظمت کے گیت گاتے تھے اور غالب و اقبال کے بعد خود کو اردو کا تیسرا بڑا شاعر بتاتے تھے۔ اس بار بھی ڈاکٹروں کی کوشش اور گھر والوں کی جی توڑ تیمارداری اور دلدہی نے انہیں صحتیاب کر دیا۔جنون تو ختم ہوا لیکن اندر کی گھٹن اور جنسی تشنگی درپردہ اپنا کام کرتی رہی۔ایک وقت کا ہونہار اور سب کا چہیتا شخص اس حالت کو پہنچ گیا تھا کہ اسے بالکل ہی نکھٹو قرار دیا جا چکا تھا۔ وہ زندگی کی تلخیوں کو شراب میں غرق کرتے رہے۔ کبھی زندگی کی شکایت یا کسی کا شکوہ زبان پر نہیں آیا ۔سب کچھ خاموشی سے سہتے رہے۔1945ء میں دیوانگی کا تیسرا اور سب سے شدید دورہ پڑا۔جس شخص نے عالم ہوش میں کبھی کوئی چھچھوری یا رکیک حرکت نہ کی ہو وہ دہلی کی سڑکوں پر ہر لڑکی کے پیچھے بھاگ رہا تھا۔گھر والے ہر وقت کسی بری خبر کے لئے تیار رہتے کہ مجازؔ کسی موٹر کے نیچے آ گئے یا کسی سڑک پر ٹھٹھرے ہوئے پائے گئے۔ وہی ماں جس کی زبان ان کی سلامتی کی دعائیں کرتے نہ تھکتی تھی اب ان کی یا پھر اپنی موت کی دعائیں کر رہی تھی۔جوش ملیح آبادی نے دہلی سے خط لکھا کہ مجاز ؔکو آگرہ کے پاگل خانے میں داخل کرا دیا جائے۔مجاز ؔاور آگرہ کا پاگل خانہ،گھر والے اس تصور سے ہی کانپ گئے۔آخر بڑی کوششوں سے انھیں رانچی کے دماغی شفاخانے میں بی کلاس کا ایک بستر مل گیا۔ چھہ مہینہ بعد شفایاب ہو کر گھر لوٹے تو ایک ہی ماہ بعد ان کی چہیتی بہن صفیہ اختر(جاوید اختر کی والدہ) کا انتقال ہو گیا۔یہ سانحہ ان پر بجلی کے جھٹکے کی طرح لگا۔ اچانک جیسے ان کے اندر احساس ذمہ داری جاگ اٹھا ہو۔وہ صفیہ کے بچوں کا دل بہلاتے ان سے ہنسی مذاق کرتے اور ان کے ساتھ کھیلتے اور انہیں پڑھاتے۔ ہر شام کپڑے بدل کر تیار ہوتے اور کچھ دیر گھر میں ٹہلتے جیسے سوچ رہے ہوں کہ جاؤں کہ نہ جاؤں۔کبھی کبھی ہفتہ ہفتہ گھر سے نہ نکلتے۔لیکن آخر کب تک۔وہ زیادہ دن خود کو قابو میں نہیں رکھ سکے۔اب لکھنؤ میں ان کے دوست گھٹیا قسم کے شرابی تھے۔جو انہیں گھیر گھیر کر لے جاتے اور ناقص شراب پلاتے۔ان کی شراب نوشی کا اڈہ ایسا شراب خانہ تھا جس کی چھت پربیٹھ کر یہ لوگ مے نوشی کرتے تھے(مجازؔ اسے لاری کی چھت کہتے تھے)۔ 1955 کےدسمبر کی ایک رات اسی چھت پر شراب نوشی شروع ہوئی اور دیر رات تک جاری رہی۔بدمستی کے عالم میں ان کے ساتھی ان کو چھت پر ہی چھوڑ کر اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے اور شراب خانہ کے مالک نے یہ سمجھ کر کہ سب لوگ چلے گئے ہیں زینہ کا دروازہ مقفل کر دیا۔ دوسری صبح جب دکان کا مالک چھت پر گیا تو مجازؔ وہاں نیم مردہ حالت میں بیہوش پڑے تھے۔ان کو فورا"اسپتال پہنچایا گیا لیکن اس بار ڈاکٹر مجاز ؔسے ہار گئے۔ان کے تعزیتی جلسہ میں عصمت چغتائی نے کہا مجازؔ کی حالت دیکھ کر مجھے کبھی کبھی بہت غصہ آتا تھا اور میں ان سے کہتی تھی کہ اس سے اچھا ہے مجازؔ کہ تم مر جاؤ، آج مجازؔ نے کہا کہ لو میں مر گیا۔تم مرنے کو اتنا مشکل سمجھتی تھیں!
مجازؔ کی شاعری اردو میں غنائی شاعری کا بیش بہا نمونہ ہے۔ان کے کلام میں عجیب موسیقیت ہے جو ان کو سبھی دوسرے شعراء سے ممتاز کرتی ہے۔ انھوں نے غزلیں بھی کہیں لیکن وہ بنیادی طور پر نظم کے شاعر تھے۔وہ حسن پرست اور عاشق مزاج تھے لیکن ان کی حسن پرستی میں اک خاص قسم کی طہارت تھی۔ ان کی چھوٹی سی نظم" ننھی پجارن" اردو میں اپنی طرح کی انوکھی نظم ہے۔" ایک نرس کی چارہ گری " بھی ان کی مشہور نظم ہے اور اس میں ان کا پورا کردار خود کواجاگر کر گیا ہے۔اس نظم کے آخری حصہ کے بولڈ حروف میں لکھے گئے الفاظ پر غور کیجئے۔
"مجھے لیٹے لیٹے شرارت سی سوجھی
جو سوجھی بھی تو کس قیامت کی سوجھی
زرا بڑھ کے کچھ اور گردن جھکا لی
لب لعل افشان سے اک شئے چرا لی۔۔۔
میں سمجھا تھا شاید بگڑ جاے گی وہ
ہواؤں سے لڑتی ہےلڑ جاے گی وہ
ادھر دل میں اک شور محشرپبا تھا
مگر اسطرف رنگ ہی دوسرا تھا
ہنسی اور ہنسی اس طرح کھلکھلاکر
کہ شمع حیا رہ گئی جھلملاکر ۔۔۔"
مجازؔ کے یہاں الفاظ میں ہی نہیں بلکہ جذبات کے اظہار میں بھی زبردست رکھ رکھاؤ پایا جاتا ہے ۔ عشقیہ شاعری میں گریہ و زاری یا پھر پھکڑ پن کے راہ پا جانے کا ہر وقت امکان رہتا ہے لیکن مجازنے ان دونوں سے اپنے دامن کو محفوظ رکھا۔ انھوں نے زندگی بھر سب سے غیر مشروط محبت کی۔اور اسی محبت کے گیت گاتے رہے۔اور بہت کم لوگ سمجھ پاے کہ
"ساری محفل جس پہ جھوم اٹھی مجاز
وہ تو آواز شکست ساز ہے"
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets