aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
یہ ناول ہر اس قاری کے لئے ایک اچھا ذریعہ ہے جو برصغیر کی غیر جانبدارانہ تاریخ کو جاننا چاہتا ہے، وقت کی بالادستی اور انسان کے خوابوں کی شکست اس ناول کا موضوع ہے ۔قرۃ العین حیدر نے اس ناول میں بنگال کی کمیونسٹ تحریک کے آغاز اور انجام کا بے مثال مطالعہ پیش کیا ہے۔ انہوں نے دکھایا ہےکہ کمیونسٹ تحریک کے کارکن جوش وجذبے کے ساتھ دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ لیکن اس تحریک کا انجام یہ ہے کہ ماضی کےانقلابی عام سیاست دان بن کر رہ گئے ہیں اور انہیں انقلاب کے بجائے وہ سب چیزیں عزیز ہوگئی ہیں جن کے خلاف وہ کبھی انقلاب برپا کرنا چاہتے تھے۔ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ صرف عقیدے اور نظریے کی حکومت ہے جو سیاست ہی کو نہیں پوری زندگی کو تکرار کی بے معنویت، بدصورتی اور تھکا دینے والی یکسانیت سے نجات دلاتی ہے۔ اس ناول پر انہیں ہندوستان کے سب سے باوقار ادبی اعزاز گیان پیٹھ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔
قرۃ العين حيدر 20 جنوری، 1926ء میں اتر پردیش کے شہر علی گڑھ میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد سجاد حیدر یلدرم اردو کے پہلے افسانہ نگار شمار کیے جاتے ہیں۔ تقسیم ہند کے بعد قرۃ العین حیدر کا خاندان پاکستان چلا گیا۔ 1959ء میں ان کا ناول آگ کا دریا منظر عام پر آیا جس پر پاکستان میں بہت ہنگامہ ہوا۔ اس کے فوراً بعد انہوں نے بھارت واپس جانے کا فیصلہ کیا جہاں وہ بطور صحافی کام کرتی رہیں اور افسانے اور ناول بھی لکھتی رہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے ادبی تراجم بھی کیے۔ ان کی کتابوں کی تعداد 30 سے زیادہ ہے۔ انہوں نے 1964ء تا 1968ء ماہنامہ امپرنٹ کی ادارت کی اور السٹریٹیڈ ویکلی آف انڈیا میں اداریہ لکھتی رہیں۔ ان کی کتابیں انگریزی اور دیگر زبانوں میں ترجمہ ہوئی ہیں۔ ان کے سبھی ناولوں اور کہانیوں میں تقسیم ہند کا درد صاف نظر آتا ہے۔ ان کے دو ناولوں آگ کا دریا اور آخر شب کے ہم سفر کو اردو ادب کا شاہکار مانا جاتا ہے۔
آخرِ شب کے ہم سفر کے لیے 1989ء میں انہیں بھارت کے سب سے باوقار ادبی اعزاز گیان پیٹھ انعام سے بھی نوازا گیا جبکہ بھارتی حکومت نے انہیں 1985ء میں پدم شری اور 2005ء میں پدم بھوشن جیسے اعزازات بھی دیے۔ 11 سال کی عمر سے ہی کہانیاں لکھنے والی قرۃ العین حیدر کو اردو ادب کی ورجینیا وولف کہا جاتا ہے۔ انہوں نے پہلی بار اردو ادب میں سٹریم آف کونشیئسنس تکنیک کا استعمال کیا تھا۔ اس تکنیک کے تحت کہانی ایک ہی وقت میں مختلف سمت میں چلتی ہے۔ ان کی وفات 21 اگست 2007ء کو نوئیڈا میں ہوئی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قبرستان میں مدفون ہوئیں۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets