aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
دور حاضر کے مشہور غزل گو شاعر وسیم بریلوی کا شعری مجموعہ آپ کے سامنے ہے۔ اس کی تمام غزلیں انتہائی سلیس، دلکش اور شیریں انداز میں پیش کی گئی ہیں۔ اس کے اشعار کی تاثیر و دلکشی ، دوسری کتابوں میں کم نظر آتی ہے۔ بیشتر غزلوں میں غم دوراں کی کہیں ہلکی اور کہیں گہری پرچھائیاں نظر آتی ہیں ۔ پوری کتاب میں لفظی بازی گری سے ہٹ کر واقعیت سے جڑے رہ کر اپنی بات کہنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اس مجموعہ کا ہر شعر شعور و آگہی کا گلدستہ ہے ۔ قاری جب اس مجموعے کو پڑھیں گے تو قدم قدم پر انہیں محسوس ہوگا کہ یہ غزل ان کے لئے ہی کہی گئی ہے۔
نام زاہد حسن اور تخلص وسیم ہے۔۸؍فروری ۱۹۴۰ء کو بریلی(یوپی) بھارت میں پیدا ہوئے۔ آگرہ یونیورسٹی سے ایم اے (اردو) کیا۔ابتدائی درجات سے ایم اے تک انھوں نے امتیازی پوزیشن حاصل کی۔دہلی یونیورسٹی سے ملازمت کا سلسلہ شروع ہواپھربریلی کالج کے شعبہ اردو سے وابستہ ہوگئے۔انھوں نے روہیل کھنڈ یونیورسٹی میں ڈین آف فیکلٹی آرٹس ہونے کا بھی اعزاز حاصل کیا۔ بھارت میں پروفیسر وسیم بریلوی کے فن اور شخصیت پر ڈاکٹر جاوید نسیمی نے تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ وسیم بریلوی کی ادبی زندگی کا آغاز۱۹۵۹ء سے ہوا۔ جب انھوں نے باقاعدہ شاعری شروع کی تو سب سے پہلے اپنے والد صاحب کو غزلیں دکھائیں۔ بعد میں منتقم حیدری صاحب سے باقاعدہ اصلاح لی۔ ان کا ترنم بہت اچھا ہے اور یہ مشاعرے کے کامیاب شاعر ہیں۔ ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:’’تبسم غم‘‘، ’’آنسو میرے دامن میں‘‘(شعری مجموعہ۔دیوناگری رسم الخط میں)، ’’مزاج‘‘، ’’آنسو آنکھ ہوئی‘‘، ’’پھرکیا ہوا‘‘(مجموعہ کلام)۔’’مزاج‘‘ پر اردو اکیڈمی لکھنؤ کا اعلی تحقیقی ایوارڈ ملا۔ میراکادمی کی جانب سے ’’امتیاز میر‘‘ ملا۔ ان کے علاوہ انھیں اورکئی ایوارڈ اور اعزازات عطا کیے گئے۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:346
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets