aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
وجاہت علی کی تحریر کردہ یہ کتاب اردوسیکھنے والوں کے لئے ایک آسان کتاب ہے کیوں کہ اردو کی اس کتاب کو بہت سے نئے اور پرانے تجربوں کی روشنی میں انوکھے اور عمدہ اسلوب سے مرتب کیا گیا ہے ، جو طریقہ اس کتاب میں اپنایا گیا ہے وہ کافی دل چسپ ہے، جس کی وجہ سے کم وقت میں رغبت کے ساتھ سیکھا جا سکتا ہے، کتاب میں مفرد حروف کے بعد چند مرکب حروف۔"آ"اور"ای"کے لہجےکوآسان انداز میں بیان کیا گیا ہے، چند حروف سکھانے کے بعد ان کو الفاظ اور جملوں میں کس طرح استعمال کیا جائے ان تمام چیزوں کو آسان انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ کتاب کی خوبی یہ ہے کہ معلوم سے نا معلوم اور آسان سے مشکل کی طرف توجہ دی گئی ہے۔
وجاہت علی سندیلوی ایک ہمہ جہت شخصیت تھے۔ وہ صرف اردو کے ادیب و شاعر ہی نہیں، ہندوستان میں اردو کے مجاہد بھی تھے۔ اردو کو اس کا جائز حق دلوانے لے لئے ہمیشہ کوشاں رہے۔ آپ کی کل56 تصانیف شائع ہوئی ہیں:
طنز و مزاح 10 کتابیں، افسانے 5 مجموعے، ناول ایک، شعری مجموعے تین، سیاست پر ایک کتاب، رپورتاژ، اردو تدریس، بچوں کے ادب اور غالیبات پر کتابوں کے علاوہ مقالات پر مشتمل ایک کتاب زیر طبع ہے۔ ان کی لکھی ہوئی اردو تدریس کی کتاب’ آسان اردو‘ کی لاکھوں کاپیاں اردو کے پرچم کو آج بھی بلند کر رہی ہیں۔
وجاہت صاحب یکم مارچ 1916 کو بھوپال میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد چودھری عشرت علی صاحب خان بہادر، چودھری نصرت علی صاحب سکریٹری انجمن تعلق داران اودھ کے بیٹے اور والدہ سروری بیگم صاحبہ میر سید محمود علی صاحب رئیس بھوپال کی بڑی بیٹی تھیں۔ آپ کے والد سندیلہ کے ایک بڑے زمین دار تھے۔ ابتدائی تعلیم سندیلے میں گھر پر ہی اتالیق کی نگرانی میں حاصل کی۔ ہائی اسکول اور انٹرمیڈیٹ کرسچن کالج لکھنؤ سے پاس کیا۔ انیس برس کی عمر میں لکھنؤ یونی ورسٹی سےبی اے اور پھر 2 سال بعد ایل ایل بی کا امتحان پاس کیا۔ پھر ٹریننگ کے بعد 1940 میں مقامی عدالتوں میں وکالت کا آغاز ہوا جہاں ان کو بہت جلدی شہرت حاصل ہوئی اور کام ملتا گیا۔ وکالت کا یہ سلسلہ 1996 یعنی وفات تک جاری رہا۔ آخر میں گھر پر ہی وکیلوں کو مشورہ دیتےتھے۔
طالب علمی کےزمانے سے ہی ادب سے شغف رہا۔ کالج میگزین کے ایڈیٹر بنائے گئے اور خود ہفتہ وار’پیغام‘ لکھنؤ اور ’حقیقت‘ لکھنؤ میں مضامین اور مراسلے لکھنے لگے۔ جب ایل ایل بی میں تھے تو روزنامہ ’حق‘ لکھنؤ میں اسسٹنٹ ایڈیٹر بن کر ملازمت کرنے لگے۔ یہاں وہ مزاحیہ کالم بھی لکھے جو ان سے پہلے شوکت تھانوی صاحب لکھا کرتے تھے۔ آپ جواہر لعل نہرو کی طلبہ تحریک میں شامل رہے اور ذاتی طور بھی ان سے قربت حاصل کی تھی۔ انہوں نے کانگریس کے ترجمان ’خبرنامہ‘ کا ایڈیٹر بنا دیا۔ آپ عموماً فرقہ واریت کے خلاف اور سیکولرزم اور سوشلزم پر لکھتے رہے۔ آپ کی کتاب ’غریب مسلمان کدھر جائیں‘ کو انگریز سرکار نے ضبط بھی کر لیا۔ گاندھی جی کے حکم پر آپ جیل نہیں گئے اور چھپ کر تحریک آزادی کا کام زور قلم سے کرتے رہے۔ ضلع اور صوبے کی بہت سی کمیٹیوں کے ممبر رہے۔ ہندوستان کی آزادی کے بعد جب اسکولوں سے اردو نکالی جانےلگی تو آپ نے احتجاج کے کیا اور کامیابی نہ ملنے پر تعلیمی چئیرمینی اور ممبر شپ سے استعفی دے دیا۔
ملک کی کئی اردو اکادمیوں نے ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں اعزازات سے نوازا۔ 9 اکتوبر 1996 کو لکھنؤ میں انتقال ہوا۔ ان کا بہت سا غیر مطبوعہ ادبی سرمایہ ہے جوان کی بیٹی مشہور ادیبہ ڈاکٹر صبیحہ انور شائع کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets