aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
پتھروں پر لکھے کتبوں کا پڑھنا ہنر ہے اور صحیح پڑھنا تجربہ کار ی اور ہنرمندی کی واضح علامت ۔ جس کے لئے نہ صرف محنت شاقہ کی حاجت درکار ہے بلکہ اس میں مال و متاع اور فرصت وافر کی بھی سخت ضرورت ہے ۔ سر سید نے دہلی جو کبھی عالم میں شہر انتخاب ہوا کرتا تھا کی نادر و بیش قیمت وراثت کو اپنی آنکھوں سے برباد ہوتے دیکھا تو ان سے رہا نہ گیا اور انہوں نے آثار قدیمہ کی حفاظت کی ذمہ داری کا بیڑا (1263 ھ ) خود اٹھانے کی ٹھان لی اور دہلی کی ہر عمارت میں جاکر اس کے کتبوں کو پڑھا اور ان کو صفحہ قرطاس پر اتار دیا اور ہر عمار کا نقشہ اور اس کی تصویر بھی اس کے ساتھ منسلک کر دی قطب مینار ہو یا مسجد قوۃ الاسلام ،جامع مسجد ہو یا قلعہ سرخ ،مزارات مقدسہ ہوں یا خانقاہیں، حوض ہوں یا پھر نہر نالے دہلی ہو یا دہلی کے باشندے سب پر لکھا اور خوب لکھا۔ کہتے ہیں کہ سر سید اپنی کمر میں رسی باندھ کر قطب مینار پر لٹک جاتے تھے اور اس پر لکھی عبارت کو پڑھ کر لکھتے تھے جس سے ان کی کمر میں نشان پڑ گئے تھے۔ آثار قدیمہ کے بارے میں جو انہوں نے لکھا ہے واقعی یہ انہیں جیسوں کا کام تھا ۔ عمارتوں کے بارے میں جو اطلاعات فراہم کی گئی ہیں واقعی قابل تعجب ہیں اس سے سر سید کے مطالعہ کے بارے میں بھی ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ کس صلاحیت کے مالک تھے۔ جو لوگ آثار قدیمہ یا شاہجہان آباد(دہلی شہر) کو جاننا چاہتے ہیں ان کو اس کتاب کا مطالعہ ضروری ہے اردو زبان میں اس سے بہتر کتاب اس موضوع پر نظر نہیں آتی ۔ کتاب کی زبان اپنے عہد کی زبان کی بھی عکاسی کرتی ہے اگرچہ سر سید کی عمومی زبان اس طرح کی نہیں تھی مگر اس کتاب میں بارہا نظر آ جاتی ہے۔ یہ کتاب ۱۸۴۶ میں شائع ہوئی اور تین جلدوں میں ہے۔ سرسید احمد خاں نے کتاب کے پہلے اڈیشن میں مصوروں سے دہلی کی قدیم عمارتوں کی تصویریں بنوا کر کتاب میں شامل کروائی تھیں جو کسی وجہ سے دوسرے ایڈشن میں نکال دی گئیں،مرتب نے اسے دوبارہ شامل کیا ہے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets