aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
آوارہ سجدے کیفی اعظمی کا تیسرا مجموعہ کلام ہے،جو ۱۹۷۴ء میں شائع ہوا۔کیفی اعظمی نے سماج میں ہونے والی تبدیلیوں کو بڑی شدت سے محسوس کیا اور انہیں اپنے مزاج کے مطابق شعر کے سانچے میں ڈھال دیا۔ یہی وجہ ہے ان کی شاعری میں مارکسی نظریات کے ساتھ ساتھ جدیدیت کی آمیزش نظر آتی ہے۔ سماجی مسائل کے ساتھ ساتھ اس میں تنہائی کا احساس، زندگی کی حقیقتوں اور اس کی پیچیدگیوں کا اظہار آزادنہ طور پر دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس مجموعے میں فکر کے ساتھ ان کے فن میں بھی کافی تبدیلی رونما نظر آتی ہے،اندازِ بیان میں ایک طرح کی پختگی اور گھن گرج کے بجائے روانی، سلاست اور موسقیت کا احساس ہوتا ہے۔ باتوں کو سیدھے سادے انداز میں کہنے کے بجائے رمز و کنایہ اور علامتوں کا سہارا لے کر پیش کرتے ہیں ۔ زندگی اور اس کے مسائل کی ترجمانی پہلے سے زیادہ وسیع تر شکل میں دکھائی دیتی ہے۔ اب محض سیاست اور انقلاب ان کے لئے کافی نہیں تھا بلکہ شاعری کے فنی محاسن اور اس کی جمالیات کی طرف ان کی توجہ مرکوز ہوتی ہے، جس سے ان کی شاعری میں انداز بیان کے ساتھ ساتھ پر کاری کا بھی احساس ہوتا ہے۔اس مجموعہ میں "دائرہ"،"ابنِ مریم"،"مکان"،"زندگی"،"دھماکہ"،"سومناتھ"،"بہروپنی"،"دعوت"،"نیاحسن"،"چراغاں"، سانپ"اور"دوسرا بن باس" وغیرہ ایسی نظمیں ہیں جو اس بات کا ثبوت مہیا کرتی ہیں کہ کیفی اعظمی کی شاعری میں بھی شعریت کے اعلیٰ ترین نمونے موجود ہیں ،کیفیاعظمی کے اس آخری مجموعہ کو ان کے فن کی معراج تسلیم کیا جاتا ہے۔ اسی مجموعہ پر انہیں متعدد اعزاز و ایوارڈ بھی ملے اور اسی مجموعے کی بنا پر انہیں ادب میں وہ مقام بھی حاصل ہو ا جس کے وہ حقدار تھے۔
Kaifi Azmi was a famous Urdu and Hindi poet and lyricist of Hindi film. He was born on Januray 14, 1919 in a landlord family of Mejwan, Azamgarh, Uttar Pradesh. Azmi abandoned his studies of Persian and Urdu during the Quit India agitations in 1942 and shortly thereafter became a full-time Marxist. During this period, Azmi started to win great acclaim as a poet and became a member of Progressive Writers' Movement of India.