aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
جب ہندوستان اپنی آزادی کے عروجی دور میں تھا اس وقت یہ مسئلہ سب سے اہم تھا کہ ہندوستان آزادی کے بعد کس قسم کا نظام حکومت قائم کریگا۔ کیوں کہ آزادی کی جنگ کے دوران ہندو اور مسلمانوں میں جو واضح اختلاف تھا وہ سب پر عیاں تھا۔ اس لئے انگریزوں کا ماننا تھا کہ ہندوستان میں آزادی کے شرائط پائے بھی جاتے ہیں یا نہیں کیوں کہ جس ملک میں مختلف قسم کے مذاہب ہوں اس میں حکومت کا طرز عمل کس نوعیت کا ہونا چاہئے۔ کسی انگریز نے سر سید احمد سے بہت پہلے لندن کے سفر کے دوران پوچھا تھا کہ ہندوستان میں بادشاہ یعنی وزیر اعظم کس مذہب کا ہونا چاہئے؟ سر سید نے بے ساختہ جواب دیا کہ کمیونسٹ۔ اس پر انگریز کو بہت تعجب ہوا کہ ایک داڑھی توپی والا عالم ایسی بات کہہ رہا ہے جس کا اس کی فکر سے شرق و غرب کا تعلق ہے اس لئے اس نے پوچھا کہ آپ نے ایسا جواب کیوں دیا تو سر سید نے کہا کہ یہ ملک مختلف مذاہب کے ماننے والوں کا ملک ہے اس لئے اگر یہاں پر کسی بھی مذہب کا بادشاہ بنے گا تو وہ فطری طور پر طرفدار ہوگا اور کمیونسٹ چونکہ لامذہب ہوتا ہے اور انسانیت دوستی اس کا عین مذہب ہے اس لئے وہ ساری اقوام کے ساتھ مساوات کریگا۔ کیوں کہ آزادی سے قبل ہی کانگریس اور مسلم لیگ اور اسی طرح سے گرم دل کے لوگ آپس میں نبرد آزما تھے۔ کوئی ہندو راشٹر کی بات کر رہا تھا تو کوئی خلافت کی کسی نے مسلم حکومت کو سپورٹ کیا تو کسی نے خالستان کی مانگ کی۔ اسی لئے آخر کار یہاں پر جمہوریت قائم کی گئی تاکہ سارے مذاہب کو سمان اوسر مل سکے اور ہندوستان کو دو حصوں میں قومیت کے بیش پر تقسیم کر دیا گیا جو بہت ہی بڑا المیہ تھا۔ اس کتاب میں ان ہی وجوہات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ نیز کتاب میں قیام پاکستان اور اس کے عوامل سے لیکر قومی حکومت کے قیام تک اور اس کے مستحکم کرنے کے سلسلے میں گفتگو کی گئی ہے۔
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free