aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
جدید اردوغزل پر جب بھی بات كی جائے گی ظفر اقبال كو نظرانداز نہیں كیا جاسكتا۔ انہوں نے غزل کے پیرائے میں فنی اور موضوعاتی سطح پر روایت شکنی کے حوالے سے اپنی ایک الگ اور بھرپور پہچان بنائی۔ ان کے پہلے شعری مجموعے آب رواں کو عوام اور خواص، ہردو حلقوں میں بے حد پزیرائی ملی۔ اس کے بعد انہوں شعری تجربات کا سلسلہ نہ صرف جاری رکھا بلکہ اسے بام عروج تک پہنچایا۔ لفظ اور زبان کے ساتھ انہوں نے بہت تجربے کیے۔ ان تجربوں میں بہت سا رطب و یابس بھی ان کی شاعری میں در آیا مگر مجموعی طور پہ ان کا تجربہ کامیاب ہوا اور سراہا گیا۔ وہ بنجر زمینوں میں سے شعر نکال لاتے، انوکھی باتیں کہہ جاتے اور سبھی پڑھنے والوں کو حیران کرتے رہتے ہیں۔ اور یہ حیران کرنے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ انہوں نے بہت لکھا، درجنوں مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ انہیں مجموعوں کو "اب تک" کے نام سے کلیات کی شکل دی گئی ہے۔ جو پانچ جلدوں میں ہے، جس کی ہر جلد میں چھہ چھہ مجموعے شامل ہیں۔ اور پانچوں جلدوں میں تقریبا چار ہزار غزلیں شامل ہیں۔ زیر نظر جلد سوم ہے۔
نام میاں ظفر اقبال اور تخلص ظفر ہے۔ ۲۷؍ ستمبر۱۹۳۲ء کو بہاول نگر میں پید اہوئے۔ ابتدائی تعلیم اوکاڑہ میں حاصل کی۔ گورنمنٹ کالج ، لاہور سے بی اے اور لا کالج لاہور سے ایل ایل بی کا امتحان پاس کیا۔اوکاڑہ میں وکالت کرتے ہیں۔ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں: ’آب رواں‘، ’گلافتاب‘، ’رطب ویابس‘، ’سرعام‘، ’نوادر‘، ’تفاوت‘، ’غبار آلود سمتوں کا سراغ‘، ’عیب وہنر‘، ’وہم وگمان‘، ’اطراف‘، ’تجاوز‘، ’تساہل‘، ’اب تک‘(کلیات غزل کے تین حصے)۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:266
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets