aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
ترنم ریاض ایک غیر معمولی صلاحیت کی افسانہ نگارہیں۔ ان کے افسانوں میں معاشرتی شعور کے ساتھ ساتھ نفسیاتی بصیرت اور متصوفانہ رنگ کی جھلک بھی ہے۔ ترنم ریاض کے یہاں متنوع زندگی کا گہرا تجربہ،فطرت انسانی کا شعور اور اظہار کی بے پناہ صلاحیت کے ساتھ ساتھ تاریخ ، تخیل اور معاصر زندگی سے لپٹی ہوئی پیچیدہ حقیقت کو بیان کرنے کے لئے نئے نئے فنی وسائل اور تکینک تلاش کرنے میں ان کا ثانی کوئی نہیں ہے۔ان کے افسانوں میں الفاظ کی بندش اور غضب کی چستی پائی جاتی ہے۔ان کے افسانوں میں معاشرے میں ہونے والی ناانصافیوں ، ظلم وجبر اور استحصال کی عکاسی خوب ملتی ہے ۔ان کے افسانوں کے کردار معاشرے کے وہ افراد ہیں جو ظلم و زیادتی اور نا انصافیوں کے شکارہیں اورغریب سے غریب تر ہوتے جارہے ہیں مگر ان کی آہ و فریاد کسی نے نہ سنی۔ترنم ریاض کے افسانوں کے اب تک چار مجموعے شایع ہوچکے ہیں جو ’’یہ تنگ زمین "،"ابابیلیں لوٹ آئیں گی "،"یمبرزل"،" مرارخت سفر"کے نام سے مشہور ہیں،زیر نظر کتاب" ابابیلیں لوٹ آئیں گی" بھی ان کے افسانوں کا مجموعہ ہے اس مجموعہ میں ان کے اکیس افسانے شامل ہیں۔
ترنم ریاض کو دو معنوں میں فوقیت حاصل ہے، ایک تو یہ کہ وہ ہم عصر خواتین افسانہ نگاروں میں ممتاز سمجھی جاتی ہیں اور دوئم یہ کہ نسائی ادب میں ان کی آواز بہت بلند تصور کی جاتی ہے۔ ان کی کہانیوں میں کشمیری معاشرت کی بہترین عکاسی ملتی ہے اور ساتھ ہی احتجاج کی ایک توانا زیریں لہر ان کے اسلوب کا خاصہ ہے۔ ان کی کہانی ’’شہر‘‘ نے انہیں شہرت دلائی اور اس کے بعد ان کے افسانے ’’دوسرا کنارہ‘‘ اور پھر ’’مجسمہ‘‘ وغیرہ نے انہیں ادب کے بڑے افق پر ابھارنے کا کام کیا۔ شادی کے بعد ان کی تحریروں میں مزید نکھار آگیا، اس میں پروفیسر ریاض پنجابی کی بڑی معاونت شامل رہی۔ کشمیر کا سماجی اور سیاسی منظر نامہ ترنم ریاض کی ذاتیات سے زیادہ مختلف نہیں تھا اور اس وجہ سے ان کی تحریر کی پختہ کاری مسائل و الم کا گنجینہ نظر آتی ہے۔ ایک طرف وادی کی معصوم فضا اور دوسری طرف سیاست کی مزموم ہوا۔ بچوں اور پرندوں سے ان کی والہانہ وابستگی رہی جس کے بارے میں ان کا نظریہ رہا کہ یہ دونوں بہت معصوم اور حد درجہ حساس مخلوق ہیں۔ بدلتے موسم ہوں یا حالات بچے اور پرندے ان سے بہت جلد اور زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ 2000ء میں ان کا پہلا افسانوی مجموعہ’’ابابیلیں لوٹ آئیں گی‘‘ شائع ہوا، اس کے علاوہ ’’یہ تنگ زمین‘‘ اور’’ رخت سفر‘‘ وغیرہ شائع ہوئے۔ انہوں نے ناول نگاری میں بھی اپنا جوہر دکھایا اور ’’برف آشنا پرندے‘‘ لکھ کر کشمیر اور کشمیریت پر گویا ایک دستاویز مرتب کردی۔ تنقیدی اور تاثراتی مضامین کا بھی ان کے پاس ایک بڑا سرمایہ موجود ہے۔
کہا جاسکتا ہے کہ نسائی ادب کی نمائندہ افسانہ نگاروں میں ترنم ریاض کا نام خصوصیت کا حامل ہے۔ والدین نے فریدہ ترنم نام دیا تھا لیکن پروفیسر ریاض پنجابی سے رشتہ ازدواج سے منسلک ہونے کے بعد وہ ترنم ریاض ہو گئیں۔ ان کی ولادت سری نگر، کشمیر کے ایک متمول اور بارسوخ گھرانے میں1960 میں ہوئی ۔ ان کے والد کو ادب کا ذوق تھا، شاعری کے علاوہ اچھے نثر نگار بھی تھے۔ گھر میں ادبی ماحول ہونے کے سبب ترنم ریاض کو ادب کی اچھی شد بد تھی۔ ترنم ریاض بچپن ہی سے آل انڈیا ریڈیو سے بطور چائلڈ آرٹسٹ وابستہ رہیں، اسی زمانے پریم چند کی کہانیوں سے متاثر ہوکر پہلی بار جب کہانی ’مصور‘ بچوں کے لئے تحریر کیا تو اسے بڑوں کے لئے ریڈیو پر پڑھوایا گیا۔ اس وقت ان کی عمر کوئی گیارہ برستھی۔ بعد میں وہ کہانی کشمیر کے معروف اخبار ’آفتاب‘ میں شائع ہوئی۔Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets