aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
ابواب المصائب مرزا دبیر کی وہ کتاب ہے جو انھوں نے 1732ء میں مکمل کی تھی اس وقت مرزا کی عمر تقریبا 27 سال رہی ہوگی۔ اس کتاب کو رجب علی بیگ کے فسانہ عجائب کے بعد دبستان لکھنو کی دوسری نثری تصنیف کہا جاتا ہے ،یہ کتا ب ذاکری کے اس طریقے سے تعلق رکھتی ہے جسے نثر خوانی کہا جاتا ہے ،اس کتاب میں سورہ یوسف کا بیان کرتے ہوئے جا بجا مصائب اہل بیت سے ربط دیا گیا ہے ، جس میں انھوں نے سورہ یوسف کے ترجمہ اور تفسیر کے ساتھ سید الشہداء کو آیات اور احادیث کی روشنی میں ایسا ربط دیا ہے کہ سن کر رقت طاری ہوجاتی ہے۔ اس کتاب کو شاہ نصیر الدین حیدر کے عہد میں تصنیف کیا تھا ، اور مرزا صاحن نے خود ہی اس کی تاریخ نکالی تھی، اس کتاب کی زبان سادہ ، سہل ،عالمانہ اور رواں ہے ،ابواب المصائب ایک عظیم نثری کتاب ہے جس سے اس زمانے کی زبان کا ارتقا سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ زیر نظر کتاب کو سید تقی عابدی نے مرزا دبیر کی سوانح، مقدمہ اور تشریح کے ساتھ مرتب کیا ہے، جس سے کتاب کو سمجھنا آسان ہوگیا ہے۔
मिर्ज़ा सलामत अली दबीर उर्दू के एक कवि थे। उन्होंने मरसिया लिखने की कला को एक नया मुकाम दिया। उन्हें मीर अनीस के साथ मरसिया निगारी का प्रमुख प्रवक्ता माना जाता है।
मिर्जा सलामत अली का जन्म 1803 में मिर्जा गुलाम हुसैन के घर दिल्ली में हुआ था। उनमें बचपन से ही मरसिया पढ़ने की लगन थी। इसलिए वे प्रसिध मरसिया-गो मीर मुज़फ्फर हुसैन के शिष्य बन गए। जब मीर अनीस फैज़ाबाद से लखनऊ आए तो उनकी आपस में दोस्ती हो गयी।
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets