aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
میکش اکبرآبادی کی شخصیت محتاج تعارف نہیں، وہ ایک اچھے ادیب، شاعر، مفکر اور تصوف و فلسفہ کے دلدادہ شخصیت تھے۔ ان کی یہ کتاب آگرہ اور آگرہ کے اشخاص کا تہذیبی و تاریخی مرقع ہے۔ جس میں موصوف نے آگرہ کی ادبی و تہذیبی ہلچل کو بیان کیا ہے، اس کے میلوں ٹھیلوں اور اس کی شعری نشستگاہوں، روزہ تاج کی تاریخی اہمیت اور آگرہ کے لوگوں کے بارے میں کافی حد تک بحث کی ہے۔ آگرہ سے متعلق یہ ایک بہترین کتاب ہے۔ نیز 'غبار کارواں' کے عنوان سے اپنی خود نشست بھی پیش کی ہے۔
جناب میکشؔ کی ولادت مارچ/ 1902 عیسوی میں اکبرآباد (آگرہ) کےمیوہ کٹرہ میں ہوئی۔ ان کے مورث اعلیٰ ’سید ابراہیم قطب مدنی‘ جہانگیر کے عہد میں مدینہ منورہ سے ہندوستان تشریف لائے اور اکبرآباد کو اپنا مسکن بنایا۔ سید محمد علی شاہ نام اور میکشؔ تخلص تھا۔ قادری نیازی سلسلہ سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے داداسید مظفر علی شاہ نے حضرت شاہ نیاز احمد بریلوی کے صاحبزادے حضرت نظام الدین حسین کی بیعت کی اور ان کے خلیفہ ہوئے۔ ان کے والد سید اصغر علی شاہ ان کی کم سنی میں ہی وصال فرما گئے۔ آپ کی تعلیم آپ کی والدہ نے بخوبی نبھائی جو ایک با ہوش و صالحات قدیمہ کی زندہ یادگار ہونے کے علاوہ بزرگان خاندان کے علم و عمل سے بخوبی واقف تھیں۔ اپنے بیٹے کی تعلیم کے لیے شہر و بیرونجات سے بڑے بڑے لایق علما، فضلا جن میں مولوی عبد المجید سر فہرست ہیں ان تمام لوگوں کی علمی خدمات بیش قرار معاوضوں پر حاصل کر کے ابتدائی اور وسطی علوم طے کرائے۔ آپ کو مدرسہ عالیہ، آگرہ میں داخل کرایا جہاں سے آپ نے علوم ظاہری حاصل کی اور نصاب درس نظامیہ کے مطابق آپ نے منقولات کے ساتھ ساتھ جدید و قدیم معقولات کی تعلیم بھی حاصل کی۔ آپ اپنی خاندانی روایت کے مطابق سجادہ نشین بھی ہوئے۔