aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
اردو ادب کے بہت ہی مقبول استاد شاعر جناب ضیاء شادانی کی پیدائش 28 دسمبر 1948ء کو نئی بستی مرادآباد میں ہوئی ۔ ان کا اصل نام ضیاء اسلام تھا۔ ان کی رسمی تعلیم بہت آگے تک نہیں جا سکی اور ہائی اسکول کے بعد ادیب کامل پاس کر لیا۔ زندگی کی جدوجہد کے سبب کم عمری میں ہی زمہ داریوں کا بوجھ ان پر آن پڑا۔ وہ اپنے ذریعہ معاش کے لئے موروثی مجسمہ سازی کے پیشہ سے منسلک ہو گئے۔
ان کے شعری سفر کا آغاز 1968ء میں شروع ہوا۔ ابتدا میں انہوں نے اسیر شادانی سے تلمز حاصل کیا۔ بعد ازاں کبھی کبھی قمر مرادآبادی، علامہ کیف مرادآبادی، سعید عارفی اور گوہر عثمانی سے بھی مشورۂ سخن لیتے رہے۔ انہوں نے خاص طور پر شاعری میں اچھی استعداد پیدا کی۔ ان کی شاعری صاف ستھری اور سادہ لیکن معنی خیز ہوتی تھی جس سے انہیں عوام کے بیچ خاصی مقبولیت حاصل ہوئی۔ وہ اپنے عہد کے کئی شعرا کے ساتھ مشاعروں اور ادبی نشستوں میں شرکت کرتے رہے۔ ان کے کلام "شمع"، "بیسویں صدی"، "قومی جنگ"، "ملاپ"، "پرتاپ" جیسے کئی قومی اخبارات میں اشاعت پذیر ہویے۔ ان کے فن میں خلوص اور جذبات میں صداقت تھی۔ انہیں ان کے ادبی کارناموں پر کئی بار اعزاز سے نوازا گیا تھا۔
ضیاء شادانی کا پہلا شعری مجموعہ "ایوانِ وفا" 2012ء میں اور دوسرا "سمندر پیاسا ہے شائد" 2016ء میں شائع ہو چکا ہے۔ ان کے دونوں شعری مجموعوں کو اتر پردیش اردو اکیڈمی کی جانب سے انعامات سے بھی نوازا گیا تھا۔ ان کے بیٹے عدنان بن ضیاء بھی حلقۂ ادب میں اپنی اچھی شناخت رکھتے ہیں اور ادبی محفلوں میں شرکت کرتے رہتے ہیں۔ 20 جولائی 2019ء کو تویل بیماری کے باعث ضیاء صاحب اس دنیا فانی سے رخصت ہو گئے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets