aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
سیدہ اختر اپنے وقت کی معروف خطیبہ، ادیبہ اور شاعرہ ہیں۔ زیر نظر کتاب انہیں کا شعری مجموعہ "اختر و اقبال" ہے۔ جو اقبال کی تضمین پر مبنی ہے۔ ان تضمینوں میں بلا کی سادگی و روانی ہے۔ سب سے اہم چیز ترنم ہے جو قاری کو متوجہ کرتا ہے۔ مجموعہ کے شروع میں کئی بڑے ادیبوں کی آرا شامل ہیں۔ جس سے سیدہ اختر کے کلام کی خصوصیت پر روشنی پڑتی ہے۔
سیدہ اختر اپنے زمانے کی مشہور شاعرہ اور نثر نگار تھیں ۔قومی خدمات کا شدید جزبہ رکھتی تھیں۔ پہت اچھی مقرر تھیں، ان کو خطیبہ ہند اور زہرہ سخن کے خطاب دئے گئے تھے۔ مشاعروں میں اپنی ملًی و اصلاحی نظمیں اور جلسوں میں تقریریں بہت پر جوش طریقے سے پیش کرتی تھیں۔ پہلے خاکسار تحریک میں فعال رہیں اس کے بعد صدر آل انڈیا زنانہ مسلم لیگ رہیں۔
ان کے آبا واجداد لکھنؤ سے تعلق رکھتے تھے۔ ہجرت کر کے حیدر آباد میں بس گئے ان کے دادا کا نام اعظم جنگ بہادر تھا۔ چار سال کی تھیں جب والد گذر گئے چچا نے پالا تھا۔ گھر پر فارسی اور اردو کی ابتدائ تعلیم کے بعد محبوبیہ اسکول میں داخل ہوئیں۔ 1932، میں نصیر آباد (راجپوتانہ) کے رئیس اور گورنمنٹ کانٹریکٹرعبد المغنی سے شادی ہوئ۔ زیادہ تر کانپور میں دہیں لیکن اپنے نام کے ساتھ حیدرآبادی لکھتی تھیں۔
شادی کے بعد شاعری کی طرف مائل ہوئیں شروع میں رومانی شاعری کا رجحان رہا اس کے بعد جب خاکسار تحریک میں فعال ہوئیں تو ملی و انقلابی نظمیں کہیں اور بہت مشہور ہوئیں۔ 1938 میں مشرق بعید کا سفر کیا، وہاں کی خواتین کی زندگی مطالعہ کیا اور واپس آکر آصلاح خواتین کے لئے مزید جوش سے کام کرنے لگیں۔ علامہ اقبال سے بہت متاثر تھیں، اقبال کے کلام پر تضمینوں پرمشتمل کتاب ’اقبال واختر‘ شائع ہوئ ہے۔
1943میں بنگلور میں ایک عظیم الشان مشاعرہ و کانفرنس ہوئ تھی جس کے سب اخراجات سیدہ اختر نے اٹھائے تھے۔ اس مشاعرے کی روداد ماہنامہ شاعر، آگرہ کے سن 1943 کے کئ شماروں میں شائع ہوئ تھی۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets