Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مصنف : انتظار حسین

اشاعت : 001

ناشر : مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، نئی دہلی

سن اشاعت : 1983

زبان : Urdu

موضوعات : تحقیق و تنقید, مضامين و خاكه

ذیلی زمرہ جات : فکشن تنقید, مضامین

صفحات : 238

معاون : سینٹرل لائبریری آف الہ آباد یونیورسٹی، الہ آباد

علامتوں کا زوال
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

کتاب: تعارف

انتظار حسین کا شمار ارد کے اہم افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے ان کے ناول اور افسانے ادب کی بلندی پر فائز ہیں ۔ ان کی تحریروں کا کمال یہ ہے کہ وہ علامتی اور استعاراتی اسلوب کو نت نئے ڈھنگ سے بالکل اچھوتے انداز میں استعمال کرنے والے فن کار تھے ۔ان کا فن عوامی نہیں تھا بلکہ عام قاری کی فہم و بصارت سے کوسوں دور نظر آتا ہے ۔ ان کی تخلیق کا مطالعہ کر نے کے لیے وسیع مطالعہ ضروری ہے ۔ لیکن ان کی یہ کتاب تخلیق پر نہیں بلکہ تنقید پر ہے اور مستقل لکھے گئے مضامین نہیں ہیں بلکہ وہ خود لکھتے ہیں ’’ باقاعدہ تنقیدی مقالہ لکھنے کا تو میں اہل ہی نہیں۔ یہ تو بس چیزوں کے بارے میں ، تحریروں کے بارے میں ،ادب کے سوالات کے بارے میں ، تہذیب کے معاملات کے بارے میں ایک حقیر افسانہ نگار کے رد عمل ہیں۔‘‘ اس متعلق سمجھ سکتے ہیں کہ ایک تخلیق کار کی نظر کیا ہوتی ہے وہ علامتوں کو کس طرح تراشتا ہے اور کہانیوں میں جان ڈال دیتا ہے ۔اس کتاب میں بہت ہی قیمتی اور نادر خیالات سے روشناس ہوں گے ۔ کتاب کودو حصوں میں رکھا گیا ہے ۔ پہلے حصے میں پندرہ عناوین کے تحت ادب کے مختلف مسائل پر گفتگوہے جن میں سے ایک علامتوں کا زوال بھی ہے ۔ کتاب کے دوسرے حصے میں تیرہ شخصیات اور تخلیقا ت پر گفتگو ہے ۔ کتا ب کا ایک ایک جملہ نظر و نظریہ سے بھر پور ہے ۔ اعلیٰ ادبی ذوق رکھنے والوں کے لیے قیمتی اثاثہ سے کم نہیں ہے ۔

.....مزید پڑھئے

مصنف: تعارف

انتظار حسین 21 دسمبر 1925ءکو ڈبائی ضلع بلند شہر میں پیدا ہوئے۔ میرٹھ کالج سے بی اے  اور ایم اے اردو کیا۔ قیام پاکستان کے بعد لاہور میں قیام پذیر ہوئے، جہاں وہ صحافت کے شعبے سے وابستہ ہوگئے۔

انتظار حسین کا پہلا افسانوی مجموعہ ”گلی کوچے“ 1952ء میں شائع ہوا۔ روزنامہ مشرق میں طویل عرصے تک چھپنے والے کالم لاہور نامہ کو بہت شہرت ملی۔ اس کے علاوہ ریڈیو میں بھی کالم نگاری کرتے رہے۔ افسانہ نگاری اور ناول نگاری میں ان کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔

انتظار حسین اردو افسانے کا ایک معتبر نام ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے اسلوب، بدلتے لہجوں اور کرافٹنگ کے باعث آج بھی پیش منظر کے افسانہ نگاروں کے لیے بڑا چیلنج ہے۔ ان کی اہمیت یوں بھی ہے کہ انہوں نے داستانوی فضا، اس کی کردار نگاری اور اسلوب کا اپنے عصری تقاضوں کے تحت برتاہے۔ ان کی تحریروں کی فضا ماضی کے داستانوں کی بازگشت ہے۔ انتظار حسین نے اساطیری رجحان کو بھی اپنی تحریروں کا حصہ بنایا۔ ان کے یہاں نوسٹیلجیا، کلاسیک سے محبت، ماضی پرستی، ماضی پر نوحہ خوانی اور روایت میں پناہ کی تلاش بہت نمایاں ہے۔ پرانی اقدارکے بکھرنے اور نئی اقدار کے سطحی اور جذباتی ہونے کا دکھ اور اظہار، انداز اور لہجہ بہت شدید ہوجاتا ہے۔ وہ علامتی اور استعاراتی اسلوب کے نت نئے ڈھنگ سے استعمال کرنے والے افسانہ نگار ہیں لیکن اپنی تمام تر ماضی پرپرستی اور مستقبل سے فرار اور انکار کے باوجود ان کی تحریروں میں ایک عجیب طرح کا سوز اورحسن ہے۔

انتظار حسین کی تصانیف میں آخری آدمی، شہر افسوس، آگے سمندر ہے، بستی، چاند گہن، گلی کوچے، کچھوے، خالی پنجرہ، خیمے سے دور، دن اور داستان، علامتوں کا زوال، بوند بوند، شہرزاد کے نام، زمیں اور فلک، چراغوں کا دھواں، دلی تھا جس کا نام، جستجو کیا ہے، قطرے میں دریا، جنم کہانیاں، قصے کہانیاں، شکستہ ستون پر دھوپ، سعید کی پراسرار زندگی، کے نام سر فہرست ہیں۔

انتظار حسین پاکستان کے پہلے ادیب تھے جن کا نام مین بکر پرائز کے لیے شارٹ لسٹ کیا گیا تھا۔ انھیں حکومت پاکستان نے ستارہ امتیاز اور اکادمی ادبیات پاکستان نے پاکستان کے سب سے بڑ ے ادبی اعزاز کمال فن ایوارڈ سے بھی نوازا تھا۔

یہ تحریر عقیل عباس جعفری کی ہے جو ایک معروف ادیب ہیں۔ 

.....مزید پڑھئے
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

مصنف کی مزید کتابیں

مصنف کی دیگر کتابیں یہاں پڑھئے۔

مزید

مقبول و معروف

مقبول و معروف اور مروج کتابیں یہاں تلاش کریں

مزید

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے