aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
آٹھویں صدی عیسوی میں عرب قصہ گوؤں کے ذریعہ تخلیق کی گئی الف لیلیٰ کہانیوں کی ایک مشہور کتاب ہے... جب مستقل اضافوں کے بعد اس داستان کی بطن سے ہزاروں قصے جنم لینے لگے، تو اس کا پورا نام اَلف لیلۃ و لیلۃ (ایک ہزار ایک رات) تجویز کردیا گیا... یہ پوری داستان ایک ہزار ایک راتوں کے قصوں پر محیط ہے، جس کے کچھ مشہور قصے، الہ دین، علی بابا، مچھیرا اور جن، سندباد جہازی، تین سیب، سمندری بوڑھا، شہر زاد، حاتم طائی... وغیرہ ہیں... کہتے ہیں کہ سمرقند کا ایک بادشاہ شہر یار اپنی ملکہ کی بے وفائی سے دل برداشتہ ہو کر عورت ذات سے بدظن ہو گیا۔ وہ ہر روز ایک شادی کرتا اور صبح عورت کو قتل کردیتا۔ یہ سلسلہ اس قدر دراز ہوا کہ ریاست میں عورتوں کی کمی ہونے لگی... تب وزیر زادی شہر زاد نے عورتوں کو محفوظ کرنے کا منصوبہ بنایا اور بادشاہ سے شادی کرلی۔ وہ ہر رات بادشاہ کو ایک کہانی سناتی، جب کہانی کلائمیکس پر پہنچتی تو وہ اسے کل کے لئے ملتوی کردیتی، اور کل وہ کہانی مکمل کرکے دوسری کہانی شروع کردیتی، چونکہ بادشاہ کہانیاں سننے کا بہت شوقین تھا، اس لئے ہر روز اس کا قتل ملتوی کردیتا... اس طرح کہانیوں کا سلسلہ ایک ہزار ایک راتوں تک پہنچ جاتا ہے... اس طویل مدت میں اس کے دو بچے ہوجاتے ہیں اور عورت ذات سے بادشاہ کی بدظنی جاتی رہتی ہے۔ زیر نظر داستان منظوم الف لیلہ فارسی کا اردو ترجمہ مع تصاویر ہے ۔ جس کو پہلے پڈت رتن ناتھ سرشار نے اردو میں ترجمہ کیا اس کی کچھ داستانیں جو نہایت ہی دلچسپ اور محبوب خاص و عام تھیں کو طوالت کے سبب سے چھوڑ دیا گا تھا، دوبارہ سے محمد اسمعیل متخلص بہ اثر نے منشی پراگ ناتھ مالک مطبع کی فرمایش پر ترجمہ کیا اور اس کتاب میں جا بجا مناظر کو تصاویر زیبا سے سجایا گیا ہے ۔ پہلے فارسی شعر پھر اس کی اردو میں وضاحت کی گئی ہے ۔ اسلوب دلچسپ ہے پڑھنے والے کو مائل کرتا ہے ۔ یہ الف لیلہ کا دوسرا حصہ ہے جسمیں بقیہ داستان ضخامت کی وجہ سے رہ گئی تھی اس دوسرے حصے میں پوری ہو گئی۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets