aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
اردو ادب میں بہت سی تحریکیں وجود میں آئیں ، لیکن علی گڑھ تحریک ان تمام تحریکوں میں اپنی انفرادی شان رکھتی ہے، اس تحریک کو مکمل ادبی تحریک نہیں کہا جاسکتا ہے۔ یہ سرسید کی سیاسی، سماجی، مذہبی، علمی و ادبی، کاوشوں کی وجہ سے وجود میں آئی اس لیے اس تحریک کو سرسید تحریک کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے، اس تحریک نے اردو شعر و ادب پر بھی گہرے نقوش ثبت کیے ہیں۔زیر نظر کتاب در اصل خطبات خدا بخش کا ایک حصہ ہے ۔یہ خطبہ 7 فروری 1983ء میں سید حامد وائس چانسلر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ نے دیا ،اسی خطبہ کو کتابی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔
سید حامد، جو ایک ممتاز ہندوستانی ماہرتعلیم اور سفارت کار تھے، 28 مارچ 1920 کو فیض آباد میں سید مہدی حسن اور ستارہ شاہ جہاں بیگم کے گھر پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان اصل میں مرادآباد سے تعلق رکھتا تھا، جو اپنی علمی اور ادبی روایات کے لیے مشہور ہے۔ ان کے والد، سید مہدی حسن، تاریخ، ادب اور اسلامی تعلیم سے گہری دلچسپی رکھتے تھے، جس کا اثر سید حامد کی فکری نشوونما پر نمایاں طور پر پڑا۔
سید حامد نے اپنی ابتدائی تعلیم مرادآباد انٹر کالج سے حاصل کی، جہاں سے انہوں نے 1931 میں چھٹی جماعت مکمل کی۔ ان کے والد کی ملازمت ریاست رامپور میں ہونے کے باعث ان کا خاندان وہاں منتقل ہوگیا، تاہم یہ قیام محض ایک سال ہی رہا اور وہ دوبارہ مرادآباد واپس آگئے۔ انہوں نے 1937 میں مرادآباد انٹر کالج سے انٹرمیڈیٹ مکمل کیا، جو ان کے تعلیمی اور انتظامی سفر کی بنیاد بنا۔ اس کے بعد وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخل ہوئے، جہاں انہوں نے انگریزی میں بی اے اور ایم اے کیا۔ تعلیمی جستجو نے انہیں مزید آگے بڑھایا، اور انہوں نے فارسی میں دوسرا ایم اے کرنے کے لیے داخلہ لے لیا۔
مگر تقدیر کو کچھ اور منظور تھا۔ 1943 میں، ابھی ان کا دوسرا ایم اے مکمل بھی نہ ہوا تھا کہ وہ اتر پردیش کے پروونشل سول سروسز (PCS) کے لیے منتخب ہو گئے۔ اگرچہ سرکاری ذمہ داریوں نے انہیں مصروف رکھا، مگر وہ اپنی علمی پیاس بجھانے کے لیے کوشاں رہے اور بالآخر 1947 میں فارسی میں ایم اے مکمل کر لیا، جو وہی سال تھا جب ہندوستان کو آزادی ملی۔ اس کے بعد ان کا تقرر 1949 میں ہندوستانی انتظامی خدمات (IAS) میں ہوا۔ مختلف سرکاری عہدوں پر فائز رہتے ہوئے، انہوں نے اتر پردیش اور دہلی میں کئی اہم ذمہ داریاں انجام دیں۔ 1976 سے 1980 تک، وہ اسٹاف سلیکشن کمیشن کے بانی چیئرمین کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے، جس سے ان کی اعلیٰ انتظامی صلاحیتوں کا اظہار ہوتا ہے۔
1980 میں سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد، انہیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا وائس چانسلر مقرر کیا گیا، جہاں انہوں نے پانچ سال تک اپنی ذمہ داریاں نہایت کامیابی سے نبھائیں۔ یونیورسٹی کے تعلیمی اور انتظامی نظام میں اصلاحات کے حوالے سے ان کے اقدامات نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بعد بھی ان کی تعلیمی خدمات کا سلسلہ جاری رہا، اور انہوں نے 1993 میں دہلی میں ہمدرد پبلک اسکول قائم کیا، جو ان کے تعلیمی نظریات اور علم دوستی کا واضح ثبوت ہے۔
1999 میں، وہ دہلی کی ہمدرد یونیورسٹی کے چانسلر کے عہدے پر فائز ہوئے، اور یوں ان کی علمی و تدریسی خدمات مزید مستحکم ہوئیں۔ وہ مختلف علمی اور تحقیقی اداروں سے بھی وابستہ رہے۔ خاص طور پر، وہ اعظم گڑھ کے دارالمصنفین شبلی اکادمی کی انتظامیہ کمیٹی کے رکن بھی رہے، جہاں انہوں نے علمی اور تحقیقی سرگرمیوں میں نمایاں کردار ادا کیا۔
29 دسمبر 2014 کو نئی دہلی میں ان کا انتقال ہوا، لیکن ان کی خدمات آج بھی ان اداروں اور پالیسیوں میں زندہ ہیں جنہیں انہوں نے اپنی فہم و فراست سے پروان چڑھایا۔ ان کے علمی و تعلیمی کارناموں کے اعتراف میں 2015 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سینئر سیکنڈری اسکول بوائز کو "سید حامد سینئر سیکنڈری اسکول بوائز" کا نام دیا گیا۔ مزید برآں، حیدرآباد میں واقع مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کی مرکزی لائبریری کو بھی ان کے نام سے موسوم کر کے "سید حامد مرکزی لائبریری" کا نام دیا گیا، جو ان کی علمی وراثت کا ایک روشن مینار ہے۔