aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
حضرت امیر خسرو ہندوستانی علم و ادب کی ایسی مایہ ناز شخصیت ہیں جن کے جیسی ہمہ گیر یت کسی اور شاعر یا ادیب میں نہیں پائی جاتی، ساری دنیا کے ادب میں کہیں بھی ایسی کوئی مثال نہیں ملتی جہاں ایک ہی شخص میں بہ یک وقت اتنے کمالات اکھٹا ہوں، فارسی شاعری میں ان کا لوہا ان کے ہم عصر شعراء نے مانا اور طوطئی ہند کے خطاب سے ان کو موسوم کیا گیا، وہ فارسی زبان کے علاوہ ترکی، عربی، ہندی،سنسکرت اور ہندوستان کی اور کئی زبانوں سے واقف تھے۔ ہندوستانی تہذیب کی تشکیل میں صوفی شاعرامیرخسرو کے کارناموں سے سب واقف ہیں،امیرخسرو نے اپنے کارناموں سےہمارے ذہنوں میں وطن کی محبت اور اتحاد و اتفاق کا جو ماحول پیدا کیااسے آج ہندوستان کے رنگا رنگی تمدن میں محسوس کیا جاسکتا ہے۔ امیر خسرو نے ہندوستان میں ایک نئی تہذیب کا شروعات کی۔ انھوں نے گنگا جمنی ہندو مسلم مشترکہ تہذیب کا تصور پیش کیا، امیر خسرو پہلےمسلم شاعر ہیں جنھوں نے جنھوں نے ہندوستان کی عظمت کا پرچم بلندکیا،ہندوستانی بولیوں کی جانب توجہ مبذول کرائی، ہند ایرانی اسلامی تہذیب کی پود لگائی۔ زیر نظر کتاب سید غلام سمنانی کی تحریر کردہ ہے۔ سید غلام سمنانی کا شمارماہرین امیر خسرو میں ہوتاہے،اس کتاب سے پہلے 1969 میں انھوں نے امیرخسرو پر انگریزی میں ایک کتاب لکھی تھی جو فقط 76صفحات پر مشتمل تھی،اس کتاب کے بعد لوگوں کی طرف سے اصرار ہوا کہ انگریزی کی اس مختصر کتاب کا اردو ترجمہ ہو جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ استفادہ کرسکیں،چنانچہ سید غلام سمنانی نے اپنی ہی کتاب کا ترجمہ کرنےکابیڑااٹھایااورجب یہ کتاب لکھ رہےتھےاس وقت ان کے پاس انگریزی کتاب کے مقابلے میں زیادہ مواد تھااس لئے انگریزی کتاب میں جو خامیاں تھی ان کو درست بھی کیا مزید مواد زیادہ ہونے کی وجہ سے کچھ نئی چیزوں کا اضافہ بھی کردیا جس کی وجہ سے یہ کتاب انگریزی کتاب کے ترجمہ کے بجائےخسرو کی زندگی کے حوالے سےالگ ایک مستقل تصنیف ہوگئی۔
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free