ستیہ جیت رے 2مئی 1921کو کلکتہ میں پیدا ہوے تھے۔ عام طور سے انھیں ہندوستان کا سب سے بڑا فلم ساز تسلیم کیا جاتا ہے ۔ ستیہ جیت رے نے اپنا سفر بطور ایک مصور (Illustrator) شروع کیا تھا۔ وہ ایک اشتہاری کمپنی کے ایڈوائزر بھی رہے ۔ 1947میں انھوں نے کلکتہ فلم سوسائٹی کو قائم کرنے میں اپنا تعاون دیا۔ پاتھیر پنچالی (1955)، اپرا جیتو (1956)، پارس پتھر (1958)، جلسہ گھر (1958)، اَپُر سنسار (1959)، دیوی (1960)، چارولتا(1964)، شطرنج کے کھلاڑی (1977)، سدگتی(1981) اور گھرے با ہرے (1984) ان کی چند ایسی فلموں میں سے ہیں جن کی وجہ سے ستیہ جیت رے کو عالمی شہرت نصیب ہوئی اور ان کا شمار دنیا کے عظیم فلمسازوں میں کیا جانے لگا۔
مگر ستیہ جیت رے صرف ایک فلم ساز ہی نہیں تھے بلکہ وہ ایک اعلیٰ درجے کے ادیب، مصور اور سنگیت کار بھی تھے۔ 1961میں ستیہ جیت رے نے بنگالی زبان میں شائع ہونے والے بچوں کے مشہور رسالے سندیش کو دوبارہ نکالنے کا بیڑا اٹھایا۔ اس رسالے کے بانیوں میں ان کے والد اور دادا بھی شامل رہے تھے۔ کچھ عرصے کے لیے ستیہ جیت رے نے کیمرے کو اٹھا کر ایک طرف رکھ دیا اورسندیش کے صفحات کو اپنی مصوری اور اسکیچوں کے بہترین نمونوں سے بھر کر رکھ دیا۔ انہوں نے سندیش کے لیے بے شمار کہانیاں، نظمیں اور مضامین بھی لکھے۔ بعد میں ان کی کہانیوں کے کئی مجموعے شائع ہوے جو بے حد مقبول ہوے۔ ان میں ’’فیلودا سیریز‘‘ کے تحت لکھی گئی جاسوسی کہانیوں کے علاوہ ’’پروفیسر شونکوسیریز‘‘ کے سائنس فکشن بھی شامل ہیں۔ ستیہ جیت رے نے بچپن کے دن اور اپو کے ساتھ میرے سال کے عنوانات سے اپنی یادداشتیں بھی تحریر کی ہیں۔
ستیہ جیت رے کا انتقال اپریل 1992کو کلکتہ میں ہوا اور ان کے ساتھ ہی گویا ایک پورے عہد کا بھی خاتمہ ہوگیا۔
ستیہ جیت رے کی فلمیں عام طور پر بنگلہ ادیبوں کی تخلیقات پر ہی مبنی ہیں۔ وہ فلم کو ایک مغربی آرٹ سمجھتے تھے مگر ان کا مقصد بنگال کے لوگوں کے لیے بھی فلم بنانا تھا۔ ان کی فلموں کو سمجھنے کے لیے ان کی کہانیوں کا مطالعہ بھی کرنا ضروری ہے۔
یہ انتخاب ستیہ جیت رے کی ان کہانیوں سے کیا گیا ہے جو پر اسرار یا فوق الفطرت کہانیوں کے زمرے میں آتی ہیں، اگرچہ سہل پسندی سے کام لیتے ہوے صرف اتنا ہی کہہ دینا کافی نہیں ہوگا۔ یہ انتہا پسند حد تک مافوق الفطرت عناصر رکھنے والی کہانیاں نہیں ہیں۔زیر مطالعہ کہانیاں ان کہانیوں میں سے ہیں جن میں ایک دھیما دھیما سا اسرار پوشیدہ ہے۔ ان کہانیوں کا لہجہ بہت مدھم اور نغمہ آمیز ہے۔ ان میں غصے کی کوئی لہر یا تشدد کی کوئی کیفیت نہیں ہے۔ بالکل اسی طرح ان کی فلموں میں بھی غصے ، برہمی یا بلند آواز میں احتجاج کی جگہ انسانی وجود کے نرم پہلوؤں کی ہی زیادہ عکاسی نظر آتی ہے۔ کہانیوں میں اگرچہ واقعہ موجود ہے، اور وہ بہت اہم بھی ہے، مگرستیہ جیت رے ’واقعے‘ سے زیادہ ترایک قسم کی دوری بنائے رکھتے ہیں۔ یہاں سب کچھ ، سارا ماجرا، صرف ایک ’اتفاق‘ نظر آتا ہے۔ کردار جن حالات میں گھرے ہوے ہیں، ان کو وہ خود اپنے لیے نہیں پیدا کرتے۔ ان کی فلموں کے کرداروں کی طرح ان کہانیوں کے کردار بھی زیادہ تر ان حالات سے باہر آنے کی جدوجہد کرتے ہیں؛ خوف، بے چینی، اپنی ذات کے کرب، ناقابل یقین واقعات اور اتفاقات کے پر اسرار حصار سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی انسانی زندگی کا وقار ہے۔ اپنی خوش مزاجی اور witکے ذریعے ناقابل یقین اور پراسرارحالات کے بھیانک عناصر کو تحلیل کردینے والے ان کرداروں کی یہ کوشش انسانی وجود کو ایک بامعنی جہت بخشتی ہے۔
بہت غور کرنے پر یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ ستیہ جیت رے کی ان کہانیوں کی زیریں سطح پر ایک قسم کی ’بیراگ‘ کی دھندلی سی کیفیت بھی پائی جاتی ہے۔دوری، بیراگ اور ایک پُر اسرار مگر روحانی اُداسی کی کیفیت ستیہ جیت رے کو ٹیگور کے ویدانتی فلسفے کے بہت قریب لے آتی ہے۔ اس لیے ان کہانیوں کا پر اسرار ہونا محض سطحی نوعیت کا نہیں ہے۔ یہ ایک قسم کا ناقابل فہم ’روحانی اسرار‘ ہے۔ اس کائنات، زمان و مکان سے ماورا ایک بھید اور ایک رہسیہ جو حقیقت اور صداقت کے وسیع مفہوم میں ہی اپنی جھلک پیش کرسکتا ہے۔ ’اسرار‘ حقیقت کے ساتھ منسلک ہےـ اسے زندگی کی جاری و ساری کلیات میں ہی دیکھنا ہوگا۔ ستیہ جیت رے نے یہ ثابت کردکھایا ہے کہ بغیر کسی قسم کی سررےئلسٹک تکنیک یا اسلوب کو اختیار کیے، سیدھے سادھے، سچے اور حقیقی بیانیے کے ذریعے ہی اس اسرار کو محسوس کیا جاسکتا ہے، اور دکھایا بھی جاسکتا ہے۔چنانچہ ستیہ جیت رے کی ان کہانیوں کو اس مذہبی فلسفیانہ فکر کی روشنی میں ہی پڑھا جاسکتا ہے جو کہ ٹیگور کے ویدانتی نظریے کا سرچشمہ ہے، جس کی رو سے انسان اور کائنات کا رشتہ بجاے خود ایک بھید یا اسرار ہے۔ یہیں سے ستیہ جیت رے کی کہانیوں میں ایک وجودی جہت بھی شامل ہوجاتی ہے۔
ان کی بیشتر کہانیوں میں خیروشر کی کشمکش کوئی واضح شناخت بنتی نظر نہیں آتی۔ خیروشر دونوں ہی اضافی ہیں ۔ ستیہ جیت رے ان دونوں کے درمیان کوئی تناؤ یا ٹکراؤ پیدا کرنے سے بچتے ہیں۔ ان کے یہاں جو ’بھیانک پن‘ (horror)ہے وہ بھی ’شر‘ کے پورے قد تک نہیں پہنچتا، بلکہ زندگی کی تفہیم کے واسطے بس ایک دھندلی سی بصیرت کا نشان دکھا کر اوجھل ہوجاتا ہے۔ ’شر‘ یعنی شیطانی طاقت کا اظہار ہی ’بھیانک پن ‘ کی کیفیت کا نام ہوتا ہے، مگر ستیہ جیت رے ’شر‘ کو ویدانت کے اخلاقی نظریے کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔ دنیا ’مایا‘ ’اگیان‘ اور کھیل تماشے سے بڑھ کر کچھ نہیں رہ جاتی۔
مغربی افکار، فلموں اور نظریات سے متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ یہ خالص ہندوستانی فلسفیانہ نقطۂ نظر نہ صرف ستیہ جیت رے کی تحریروں میں بلکہ ان کی فلموں میں بھی صاف نظر آتا ہے۔ چونکہ وہ ایک سائنسی اندازِفکر رکھنے والے دانشور بھی تھے، اس لیے ان کے آرٹ میں انوکھے پن کا پہلو اس سائنسی فکر، جدید خیالات، کھوج بین کے مادے اور ویدانتی فلسفے کے تال میل سے پیدا ہوا ہے۔
ستیہ جیت رے ماحول کی جزئیات نگاری میں گویا قلم سے نہیں بلکہ اپنے اس انوکھے کیمرے سے کام لیتے ہیں جس سے وہ فلمیں بناتے ہیں۔ ان کہانیوں کے بیانیے میں ماضی، حال اور مستقبل ایک اسمبلاژ کی سی حیثیت اختیار کرلیتے ہیں۔ اکثران کے بیانیے میں بصری سچویشن ، اچانک زمانۂحال کے صیغے میں اس طرح آکر سامنے کھڑی ہوجاتی ہے جیسے سنیما گھر کے گاڑھے اندھیرے میں سفید پردے پر کوئی جیتا جاگتا منظر۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ستیہ جیت رے کی ساری فکر اور سارا شعور ہی visualمیں تبدیل ہوگئے ہوں۔میری رائے میں اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اگرچہ ان کا کیمرا رےئلزم (Realism) کی مکمل نمائندگی کرتا تھا مگر اس رےئلزم کے ساتھ وہ اسرار بھی ناگزیر طور پر ان کی بصیرت کا حصہ بن گیا تھا جس کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے۔
دوسری وجہ شاید یہ بھی ہو کہ ان کی کہانیوں میں جس قسم کا آہنگ ہے اسے ایک قسم کی موسیقی سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ جولَے ان کہانیوں کی ہے وہ ان کی فلموں کے visualکی لَے سے ملتی جلتی ہے۔ ستیہ جیت رے مغربی کلاسیکل موسیقی کے بہت قائل تھے۔ ان کے خیال میں مغربی کلاسیکل موسیقی میں ایک ڈراما، ایک کہانی کی روایت بھی موجود رہی ہے۔ بیتھوون کی کسی سمفنی کو ایک درد بھری روح کی پکار، تقدیر کے خلاف انسان کی جدوجہد یا بین الاقوامی بھائی چارے کی شکل میں بھی مانا جاسکتا ہے۔ ہندوستانی کلاسیکل موسیقی میں یہ بات نہیں ہے۔ یہاں صرف ایک راگ ہے، پہلے سے ہی طے کیا گیا ایک موڈ اور ایک سُر جو شروع ہوتا ہے اور پھر ختم ہوجاتا ہے۔ اس لیے شاید ان کہانیوں میں الفاظ کے ذریعے جو داخلی موسیقی تشکیل دی گئی ہے وہ فلموں کے مناظر کی طرح ہی اپنے آپ میں اس کہانی کو پیوست کیے ہوے ہے جسے کہا بھی جارہا ہے۔
خالد جاوید