aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
عرب اور ہندوستان كے تعلقات نہایت ہی قدیم ہے۔یہ تعلقات تجارتی ،معاشی او رمذہبی سطح پر ہموار ہیں۔اہل عرب ہندوستان كے سواحل پر آتے تھے۔ہندوستان كے باشندے عرب سے آمد ورفت ركھتے تھے۔ہندوستانیوں كی مختلف جماعتیں وہاں مستقل طور پر آباد بھی تھی جن كو عرب زط اور مید كے نام سے یاد كرتے تھے۔اسلام سے قبل ہی ہندوستان كی بہت سی چیزیں عرب كی منڈیوں میں فروخت ہوتی ہیں۔اس طرح عرب اور ہندسےان كے تعلقات تجارتی اور معاشی طور پر بہت مضبوط تھے۔ہندو مسلمان میں اتحاد و اتفاق بھی تھا، لیكن ہندوستان پر انگریزوں کے قبضہ کے بعدفرنگیوں نے ہندو مسلماں میں نفاق ڈالنے كی بھرپور كوشش كی ۔جس كے لیے فرنگیوں نے چند ایسی نصابی كتابیں شائع كروائی تھیں۔جس میں اسلام اور مسلمانوں كے كردار اور تاریخ كو مسخ كركے پیش كیا گیا تھا۔اس نفاق كو مٹانے اور ہندو مسلمانوں میں اتحاد كے لیے مذہب اسلام اور مسلمانوں كی صحیح تاریخ ،كردار اور امت مسلمہ کی صحیح تصویر كو پیش كرنا ضروری تھا۔اسی مقصد كے تحت اس تصنیف کو منظر عام پر لایا گیا ۔جس میں مولانا سید سلیمان ندوی کی"عرب اور ہندوستان كے تعلقات "پرمبنی تقریریں ہیں۔ جو انھوں نے 22 اور 23 مارچ 1929 كو ہندوستانی اكاڈمی كے سامنے پیش كی تھیں۔جس كا مقصد ہند ومسلمان دونوں كو ان كا زرین عہد یاد دلاناتھا، جب دونوں گونا گوں اتحاد كے رابطوں اور سلسلوں سے بندھے تھے۔جس كے لئے مصنف نے كتاب كو پانچ ابواب میں تقسیم كیا ہے۔پہلا باب "تعلقات كا آغاز اور ہندستانی كےعرب سیاح "،دوسرا باب "تجارتی تعلقات"،تیسرا باب "علمی تعقات"،چوتھا باب "مذہبی تعلقات"،اور پانچواں باب "ہندوستان میں مسلمان فتوحات سے پہلے"كے تحت عرب اور ہندوستان كے تجارتی ،معاشی ،سماجی ،مذہبی تعلقات كی مکمل تفصیلات پیش کی گئی ہیں۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets