aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
رام لعل کے ہاتھوں مرتبہ کتاب 'اشک کے منتخب افسانے' میں زائد از ایک درجن افسانے ہیں۔ وہ بذات خود بہترین افسانہ نگاروں میں شمار ہوتے ہیں۔ کتاب کے پیش لفظ میں وہ اعتراف کرتے ہیں کہ اوپندر ناتھ اشک کو استادوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ انہوں نے سیکڑوں کی تعداد میں کہانیاں لکھی ہیں اور ساتھ ہی ایک نسل کو افسانہ نگاری کی طرف متوجہ بھی کیا ہے۔ زندگی کی کڑوی سچائی ان کے افسانوں کا ماحصل و موضوع رہا ہے۔ ترقی پسند دور کے نمائندہ افسانہ نگاروں ان کا نام سرفہرست ہے۔
اوپندر ناتھ اشکؔ پریم چند کے نامور معاصرین میں سے ایک ہیں اور پریم چند سے خاص طور پر متاثر ہیں۔ ان کے افسانوں پر ایک لمبے عرصے تک ناصحانہ اور اخلاقی رنگ غالب رہا۔ پریم چند کے افسانوں میں بھی یہی صورت تھی۔ مگر وہ آخر خار اس سے باہر آئے لیکن اشکؔ ایک طویل عرصے تک اس سے چھٹکارا نہیں پاسکے۔ اپنے ملک کی معاشرت پر وہ گہری نظر ڈالتے ہیں اور اس کی برائیوں پر ان کی نظر جم کر رہ جاتی ہے اور ان کے اصلاحی افسانے وجود میں آتے ہیں۔ اشکؔ کے موضوعات میں سیاست بھی داخل ہے لیکن یہاں بھی انداز اخلاقی اور اصلاحی ہے۔
اشکؔ نے ایک طویل مدت تک اپنے تمام تر وقت کو افسانہ نگاری پر صرف کیا۔ اس سے فن پر ان کی گرفت مضبوط ہوگئی اور زبان میں زیادہ روانی آگئی۔ اعتراض کیا جاتا ہے کہ ان کا کوئی منفرد اسلوب نہیں اور اردو افسانے پر وہ کوئی گہرا نقش نہیں چھوڑ سکے لیکن اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ اپنے زرخیز قلم سے انہوں نے اردو افسانے کے ذخیرے میں بہت اضافہ کیا۔ ان کے مشہور افسانوی مجموعے ہیں، ڈاچی، کونپل، قفس، ناسور وغیرہ اور ان مجموعوں کے بیشتر افسانوں کو دلچسپی کے ساتھ پڑھا گیا۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets