aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
علامہ اقبال کی یہ فارسی مثنوی ان کی پہلی فلسفیانہ شاعری کا مجموعہ ہے۔ یہ کتاب ۱۹۱۰ میں شروع کی گئی اور ۱۹۱۵ میں شائع ہوئی۔ علامہ کا فلسفہ خودی بہت معروف ہے۔ ان کو کامل یقین تھا کہ اس کرہ ارض کا انسان اگر فلسفہ خودی پر عمل کرے تو بلندیوں اور عظمتوں کی انتہا کو چھو سکتا ہے۔ اقبال کے نزدیک خودی کا مطلب احساس غیرت مندی، خودداری اور دوسروں کا سہارا تلاش کرنے کے بجائے اپنی دنیا آپ پیدا کرنا ہے۔ یہ مفہوم ان کے اپنے دیباچہ سے مترشح ہے۔ اس دیباچہ میں انہوں نے انسانیت اور بالخصوص مسلمانوں کے احساس زندگی پر شاندار قلم اٹھایا ہے اور بتایا ہے کہ موجودہ تہذیب و تمدن کے عدم مساوات کو بدلنا ہے اور امیر و غریب ، حاکم و محکوم اور محمود و ایاز کی تمیز کو مٹانا ہے اور یہی اس کتاب کا پیغام ہے۔ اسرار خودی کے شروع ہونے سے پہلے اس کی مرتّبہ نے کتاب کے تعلق سے کچھ اہم گوشوں پر روشنی ڈالی ہے جس کا پڑھنا یقیناً علامہ کے کتاب کو سمجھنے میں معاون ہوگا۔
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free