aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
جاوید کمال کا اصل نام واجد علی خاں تھا۔لیکن قلمی نام جاوید کمال سے مشہور ہوئے۔وہ رام پور ،یوپی میں پیدا ہوئے ،سر ٹفیکٹ کے مطابق تاریخ پیدائش 24جون 1930ئہے۔ابتدائی تعلیم گھر پر ہی والدین کی نگرانی میں ہوئی اور آٹھویں کلاس تک رام پور میں پڑھائی کی۔ہائی اسکول سے ایم اے تک علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی اور پھر پوری طرح علی گڑھ کے ہوکر رہ گئے۔
1950-55کےبعد جن شاعروں نے اردو شاعری پر گہرے اثرات مرتب کئے ،ان میں جاوید کمال کا نام سر فہرست ہے۔ہم عصر بزرگ نسل کے بعد نئی نسل کے شاعروں مثلاًجذبی، راہی معصوم رضا،خلیل الرحمن اعظمی،خالد سلطان، اشفاق پاپے، ذوقی صاحب، وحید اختر، قاضی عبدالستار، زاہدہ زیدی، اختر انصاری، شہریار، نوری شاہ اور اطہر پرویز جیسے فن کاروں کی صف میں جاوید کمال کا نام اور ان کی شاعری نمایاں حیثیت کی حامل ہیں۔
جاوید کمال کار جحان بائیں بازوں کی جانب ہونے کی وجہ سے ان کی شخصیت اورشاعری میں دہراپن نہیں دیکھنے کو ملتا وہ جیسے تھے سب کے سامنے تھے۔ان کا صرف ایک مجموعہ کلام”آواز نہ دو“1992میں شائع ہوا جو ان کے انتقال کے 15سال بعد ان کے کچھ کرم فرماﺅں کی محبت کا ثمرہ ہے۔ان کا انتقال 31جولائی1978کو دہلی میں ہوا۔
علی گڑھ میں ان کے بارہ سال بہت اچھے گزرے اس زمانے میں انہوں نے شاعری بھی خوب کی۔جن لوگوں کا 1956سے 1968تک علی گڑھ سے واسطہ رہا ہے وہ جاوید کمال کو نہ جانتے ہوں ،یہ ناممکن ہے۔وہ ایک شخص نہیں بلکہ ایک ادارہ تھا۔علی گڑھ میں تمام ادبی کلچر کا مرکز یونیورسٹی کینٹین ہوا کرتی تھی۔علی گڑھ کے چھوٹے بڑے شاعر،ادیب اور فن کار شام کو کینٹین میں جمع ہوتے تھے۔جاوید کمال میزبان ہوتے،چائے اور کافی کے دور چلتے رہتے تھے اور ادب ،ڈرامہ،سنیما،کھیل کود، یونیورسٹی کی سیاست، ادھر ادھر کی کبھی نہ ختم ہونے والی بات چیت اور بحث چلتی رہتی۔ان محفلوں کے اپنے آداب ،قاعدے اور طریقے تھے۔بڑے چھوٹے کا پورا لحاظ رکھا جاتا تھا لیکن ہر ایک کو اپنی بات کہنے کا پورا حق حاصل تھا۔
ان محفلوں میں جذبی،راہی معصوم رضا،خلیل الرحمن اعظمی، ذوقی صاحب، بلدیو مرزا، حکیم محبوب عالم، اور بھائی خاں شامل ہوا کرتے تھے۔ادب، آرٹ اور کھیل کی دنیا میں جو شخصیتیں ابھر رہی تھیں ان میں فلم ساز مظفرعلی ،کہانی کار اصغر وجاہت، صحافی ریاض پنجابی،ہاکی کے کھلاڑی علی سید اور گرودیو سنگھ کے علاوہ مشہور فلمی ہستی نصیرالدین شاہ بھی اکثر کینٹین آتے تھے۔جاوید کمال ان کے آرٹ کے قائل تھے۔جاوید کمال کی کینٹین میں شام چھ بجے کے بعد محفل جمتی اور رات دیر تک آراستہ رہتی۔شعر وشاعری ہوتی یا جاوید کمال کی گپ چلتی رہتی تھی۔انہیں بولنے کا بہت شوق تھا۔ان کے پاس باتوں کا خزانہ تھا۔مزے دار لطیفے سناتے عام طور پر رام پوری پٹھانوں کے لطیفے سناتے۔شعر سنانے کو دل چاہتا تو میر کے شعر سناتے، میر ان کے پسنددیدہ شاعروں میں تھے۔علی گڑھ میں آزادی کے بعد جتنے شاعر ہوئے ہیں ان میں جاوید کمال کی شاعری کا اپنا الگ رنگ اور خوشبو تھی۔فکر وفن کا ایسا خوبصورت امتزاج مشکل ہی سے دیکھنے کو ملتا ہے۔جاوید کمال کی شعر گوئی کی ابتدا کا زمانہ جدیدیت کی آمدآمد کا زمانہ ہے۔جدیدیت نے بدلے ہوئے حالات میں خو د کو ایک بڑی تخلیقی ضرورت کے طور پر پیش کیا۔جدیدیت کے علمبرداروں نے اپنے نظریات کو استحکام بخشنے کے لےے جاوید کی شاعری کو حوالے کے طور پر استعمال کیا،اور ایک مخصوص وقت میں جاوید کمال کے کچھ اشعار جدیدیت کا ٹریڈ مارک تصور کےے گئے۔لیکن جاوید کمال شروع ہی سے ادب کی سماجی معنویت پر زور دیتے رہے ہیں۔طالب علمی کے زمانے میں باقاعدہ کمیونسٹ پارٹی کے ممبر رہ چکے تھے ،اس لےے سماج میں ہو رہے نابرابری کے سخت مخالف تھے۔بے ساختگی ان کی غزلوں کی خصوصیت ہے۔وہ نہ روایتی شاعری کے اسیر ہیں اور نہ اس سے یکسر منحرف ہو کر غزل میں نئی ردیفیں یا تجربہ کرنے کا شوق رکھتے ہیں۔جاوید کمال کے شعری اسلوب کی تشکیل میں خود جاوید کی شخصیت نے جو کردار ادا کیا ہے اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ان کے یہاں جو ضبط وتوازن کے ساتھ وقفہ خاموشی ہے وہ سب ان کے شعری اسلوب کا بھی حصہ ہے۔جاوید کمال نے اپنی شاعری میں تنہائی ،بیگانگی، افسردگی اور احساس محرومی جیسے الفاظ بار بار استعمال کےا۔اس میں شک نہیں جاوید کمال کی شاعری میں تنہائی ،بیگانگی اور احساس محرومی کے عناصر ضرور موجود ہیں مگر یہ تمام چیزیں جدیدیت کے زیر اثر وجود میں نہیں آئیں بلکہ ان کی اپنی ذاتی محرومی کی وجہ سے یہ تراکیب ان کی شاعری میں اتر آئی ہیں۔
جاوید کمال کی غزلوں میںفکر سے بڑھ کر احساس کا عنصر غالب ہے۔اسے آپ محسوس استغراق کی کیفیت کہہ لیجئے۔وقت کی ڈور جب ہاتھ سے چھوٹ جاتی ہے اور شخصیت کا استحکام جب چور چور ہوجاتا ہے اور تنہائی کی اذیت برابرکچوکے دیتی رہتی ہے تو شاعری میں بے اطمینانی ہی نہیں بلکہ افسردگی اور اضطراب کی لہر سر اٹھاتی ہے اور گردوپیش کا ماحول ناساز گار نظر آنے لگتا ہے اور خلا میں گھومتے رہنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نظر نہیں آتا۔جاوید کمال کی غزلوں کی کائنات چھوٹی چھوٹی تصویروں کی یکجائی سے تشکیل پاتی ہے اور محدود رقبے میں تجربات کی بڑی کھڑی یعنی Authentic پیش کس سے عبارت ہے۔ان کے یہاں جذبات سے زیادہ ان کے انعکاس کافارم اہمیت رکھتا ہے۔
جاوید کمال نے اپنی ذات کو متعلقہ عہد کی تصویروں کا مرقع بناکر اسے اپنی شاعری سے اس قدر ہم آہنگ کیا کہ نئی غزل کی صورت دیگر کے حوالے سے ان کی نمائندگی کی شناخت ہوئی۔ظاہر ہے یہ رویہ بھی میر کے روےے کی توسیع تھی لیکن دونوں کے مسائل جداگانہ تھے۔نا کامیوں اور اداسیوں کے نتیجے میں جاید کمال کے احساس خودشکستگی نے میر کی آواز سے آواز ملانے میں عافیت محسوس کی اور اپنے عہد کی تہذیبی انتشار کو خیال کی جدت اور فنی سلیقے سے پیش کرکے نئی اردو غزل کا حصہ بنایا۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets