aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
یہ بیگم انیس قدوائی کی خود نوشت ہے۔ یہ خود نوشت ایک ذاتی ڈائری کی طرح ہے جس میں 1947 میں آزادی کے دوران پیش آنے والے واقعات اور اس کے کچھ سال بعد کا احاطہ کیا گیا ہے۔ یہ اس دور کے خونین واقعات کا ایک آئینہ ہے جس پر مصنفہ کے شوہر کے خون کی چھینٹیں موجود ہیں جو ان ہنگاموں میں شہید کردیا گیا ہے۔ اس خود نوشت کے آغاز کا عنوان غالب کا مصرعہ “کرتا ہوں جمع پھر سطر لخت لخت کو” کے تحت داستان “لخت لخت” کو سنایا گیا ہے۔ یہ خود نوشت ہندوستان کی تاریخ کے ایک اہم دور پر روشنی ڈالتی ہے۔ انیس قدوائی کی نثر پرزور اور شگفتہ ہے۔ جگہ جگہ اشعار کی پیوند کاری سے مضمون اور نثر میں ایک جامع معنی خیزی پیدا ہوگئی ہے۔
انیس قدوائی ادیبہ اور مشہور سماجی کارکن تھیں۔ بارہ بنکی کے مشہور نیشنلسٹ قدوائ خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ 1956 سے 1968 تک راجیہ سبھا کی ممبر رہیں۔ ان کے والد شیخ ولایت علی وکیل تھے اور ولایت علی بمبوق کے نام سے مولانا محمد علی کے اخبار’کامریڈ‘ اور ’نیو ایرا‘ میں مزاحیہ کالم لکھتے تھے۔
انیس قدوائ نے گھر ہی پر رہ کر اردو اور انگریزی سیکھی ۔ تقسیم ہند کے بعد فرقہ وارانہ فسادات میں ان کے شوہر شفیع احمد قدوائ کے مارے جانے کے بعد گاندھی جی کی رہنمائ میں انیس قدوائ نے خود کو فلاحی کاموں کے لئے وقف کردیا۔ پردہ ترک کرکے سبھدرا جوشی کے ساتھ فسادات میں مغویہ عورتوں اور لاوارث بچوں کو بلا تفریق مذہب و ملت تحفظ دینے کے لئے سینٹر قائم کئے۔ انیس قدوائ کی مشہور کتاب ’’آزادی کی چھاوّں میں‘‘ ان کے فلاحی کاموں کے حوالے سے ہندوستان کی جد وجہد آزادی اور تقسیم ہند کے بارے میں ایک تاریخی اور سماجی دستاویز مانی جاتی ہے۔ اس کا ترجمہ انگریزی میں بھی ہوا ہے۔
ان کی دو اور کتابیں ’نظرے خوش گذرے ’ اور ’اب جن کے دیکھنے کو‘ ادبی مضامین اور خاکوں پر مشتمل ہیں۔ ان کا طرز تحریر بہت رواں اور شگفتہ ہے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets