aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
اردو افسانے كی تاریخ میں سریندر پركاش كا نام علامتی و تجریدی افسانوں میں نمایاں ہے۔افسانوں میں علامتی اظہار كے لیے داستان،حكایت،دیوملا،بودھ جاتك،یونانی دیومالا وغیرہ سے واقعات كو مستعار لے كر كہانی كو پیش كیا جاتا۔اس طرح كے جدید افسانے لكھنے والوں میں منفرد نام سریندرپركاش كا ہے۔"باز گوئی" ان كاتیسراافسانوی مجموعہ ہے۔جو ان كی افسانہ نگاری كے نئے موڑ كا اشاریہ بھی ہے۔جسے ہم نئے زمانے اور نئے افسانے كا اعلان نامہ بھی كہہ سكتے ہیں۔اس مجموعہ كی كہانیوں میں فكر كا غلبہ زیادہ ہے لیكن اس كے ساتھ سیاسی و سماجی حوالوں كی بھی كثرت ہے۔اس میں شامل افسانے سریندرپركاش كے دیگر افسانوں كی بہ نسبت آسان ہیں۔ان كی علامتیں اور تمثیلیں قدرے آسان ،مانوس ،واضح اور غیر مبہم ہیں۔اس لیے بہت جلد قاری كو اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں۔مجموعہ میں شامل افسانے بازگوئی،بجوكا،خواب صورت،جنگل سے كاٹی ہوئی لكڑیاں اور ساحل پر لیٹی ہوئی عورت ،میں اسطور سازی كا رجحان حاوی ہے۔ان كی كہانی داستانوی انداز لیے ہوئے ہے۔افسانہ "باز گوئی" میں مكمل داستانوی فضا چھائی ہوئی ہے۔ "بجوكا" ایك مشہور و معروف افسانہ ہے جس میں "ہوری" آزادی كے بعد ہندوستانی عوام كا نمائندہ اور بجوكا موجودہ جمہوری نظام كی علامت بن كر سامنے آتا ہے۔سریندر پركاش نے اس افسانے كے ذریعہ موجودہ طرز حكومت سے اپنی بیزاری اور برہمی كا اظہار كیا ہے۔اس كہانی كی بڑی خوبی یہ ہے كہ یہ كرداروں كے عمل پر مبنی موثر ہے۔مجموعے كے دیگر افسانوں كے موضوعات ،اسالیب اور تكنیك میں تنوع ہے۔افسانہ نگار كی زبان و بیان پر غیر معمولی قدرت، داستانی فضا كی تعمیر میں مہارت،تجریدی ،علامتی رنگ و آہنگ كے ساتھ یہ مجموعہ انفرادیت كا حامل ہے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets