ڈاکٹررفیعہ شبنم عابدی نے انیس سو ساٹھ سے اپنا تخلیقی سفر افسانہ نگاری سے شروع کیا تھا۔ اس وقت وہ رفعیہ شبنم منچری کے نام سے لکھتی تھیں اس کے بعد وہ شاعریْ کی طرف مائل ہوگئیں۔(منچر مہاراشٹر کاایک قصبہ ہے۔ان کے والد شاکر منچری صاحب ماہر ریاضی،شاعر اور مراٹھی کے اسکالرتھے) ر فیعہ شبنم عابدی نے شاعری کے علاوہ تنقید، تحقیق اور تراجم کے میدان میں بھی گراں قدر اضافے کئے ہیں۔ تعلیم بمبئی میں حاصل کی اوربمبئی یونیورسٹی میں ’کرشن چندر چیر‘سے وابستہ پروفیسر اور شعبہ اردو اور فارسی کی صدر رہیں۔ رفعیہ شبنم عابدی ایک ہمہ جہت اسکالر اور تخلیق کار ہیں۔ ان کی کتابوں کی ایک طویل فہرست ہے۔
شعری مجموعے : ’موسم بھیگی آنکھوں کا‘۔’اگلی رت کے آنے تک‘ ۔’آنگن آنگن پروائی‘۔’نئی گھٹائیں اتر رہی ہیں‘۔
فکشن: افسانوی مجموعہ ’سپنے جاگے‘ اور دو ناول ’میں پاگل میرا منوا پاگل‘ ا ور ’دل ٹوٹے نا‘۔
تنقید: ’نظر نظر کے چراغ‘۔ ’نظر و نقطۂ نظر‘۔
تراجم: ’شاخ ِ بنات‘ حافظ کی غزلوں کا ترجمہ اور ’دھنک‘ مراٹھی نظموں کا ترجمہ۔
اس کے علاوہ ان کے بہت سے تحقیقی مقالے مختلف رسائل میں شائع ہوئے ہیں
ان کے فن و شخصیت پر کتابی سلسلہ ’تریاق‘بمبئی نے ایک خصوصی شمارہ ”رفیعہ شبنم عابدی نمبر‘‘، جون،2017 میں شائع کیا ہے۔