aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
دنیا کے ہر ادب میں کچھ نہ کچھ نیوڈٹی ضرور پائی جاتی ہے۔ لیکن دنیا نے اپنے ادب پر اچانک ایروٹک ہونے کا الزام بہت کم ہی لگایا۔جب تک ممکن ہوا اس نے اسے ادب کی اعلی معیار کی کسوٹی پر پہلے پرکھا اس کے بعد ہی کوئی الزام عایدکیا۔ ہر سماج کے الگ الگ مزاج کی وجہ سے ادب میں فحاشی کو جانچا اور پرکھا گیا۔ عربی کی کلاسیکی شاعری میں عورت کے جسم کے کسی بھی حصے کے بارے میں کتنا ہی کھل کر بات کی جائے اسے ایروٹک نہیں کہا گیا بلکہ ادب کے اعلی نمونہ ہونے کا اعجاز ہوا۔ اسی طرح فارسی شاعری میں اغلام بازی سے لیکر دیگر تمام طرح کی شاعری مل جائے گی اور یہ شاعری نہ صرف عام شاعروں نے کی بلکہ صوفی شعرا نے بھی اس طرح کی شاعری کی ہے اور اسے مجاز سے حقیقت کی طرف مراجعت کا پہلا زینہ قرار دیا ۔ اسی طرح دنیا کی دیگر زبانوں کے ادب کے بارے میں قیاس لگایا جا سکتاہے اور یوروپ و امیرکہ کے ادب پر تو کوئی سوال ہی نہیں۔ ویسے فرائڈ کی مانیں تو اصل ادب اسی طرح کا لٹریچر قرار پاتا ہے۔اسی طرح سے ہمارے ہندوستانی شاعری میں اجنتا کی مجسمہ سازی کو دیکھ کر نہ کوئی اسے نیوڈٹی کہتا ہے اور نہ ہی ایروٹسم کی فہرست میں ڈالتا ہے بلکہ اس کو فنون لطیفہ کے اعلی معیار کے روپ میں دیکھا جاتا ہے۔مگر جب بات آتی ہے ہمارے اردو ادب کی تو اگر کوئی سعادت حسن منٹو لکھنے بیٹھتا ہے تو اس کے قلم کی آزادی اور پرواز چھین لینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اور اگر مرد کی جگہ کوئی عورت اس طرح کی بات کرے تو اس کو بدچلن سے لیکر بے شرم و بے حیا اور نہ جانے کیا کیا اور کس کس طرح کے الزام سہنے پڑتے ہیں ۔ اور اگر کوئی عصمت چغتائی پھر بھی ہمت جٹا کر کسی لحاف کی سرگرمیاں بیان کرے چاہے وہ افسانہ ہی کیوں نہ ہو تو اس پر فحاشی کا مقدمہ چلایا جاتا ہے اور اس کو دیکھتے وقت لوگوں کی نگاہیں اس سے وہی طلب کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں جیسے وہ افسانہ اسی کے جسم اور اعضائے بدن پر لکھا گیا ہو۔ فہمیدہ ریاض کا یہ شعری مجموعہ جب منظر عام پر آیا تو اس کی نظمیں دیکھ کر لوگوں نے وہی رونا رونا شروع کر دیا اور ان کی نظموں کو کسی نے یوروٹک کہا تو کسی نے اس پر فحش و نیوڈ ہونے کا الزام لگایا۔ کیوں کہ انہوں نے اپنے اس مجموعہ کلام میں اس دبی کچلی عورت کو جو رات کے اندھرے اور پردے کے پیچھے رونے تک نہ پاتی تھی اور جسے زور سے ہنسنے پر بھی بے حیا کہہ دیا جاتا تھا آزادانہ لکھنے کی کوشش کی ہے اگرچہ اس سے ان کا مقصد نہ ہی عورت کے جسم کی نمائش مقصود تھی اور نہ ہی نیلامی۔ مگر پھر بھی ان کی لاکھ صفائی دینے کے باوجود لوگوں نے ان پر اعتراضات کی لمبی فہرست تیار کر دی۔ ان کا یہ مجموعہ کلام نہایت ہی خوبصورت نظموں اور چند غزلوں کا مرقع ہے جسے اردو ادب کی دنیا میں ایک نیا باب سمجھ کر مطالعہ کیا جانا چاہئے۔
Fahmida Riaz was a woman poet and Urdu writer from Pakistan, known for her strong feminist and anti-establishment leanings. She was born on 28th July, 1945 in the India before partition, a literary family of Meerut, UP. Her family settled in Hyderabad after her father's transfer to Sindh. Her father passed away when she was four and so she was brought up by her mother. After completing her education she began working as a newscaster for Radio Pakistan. She had started writing at a very young age, managed her own Urdu publication named Aawaz. Aawaz was later banned for its revolutionary vision and publishing articles containing a liberal view on the then ruling government. Consequently her family had to spend almost seven years in exile. She had also held the post of MD at the National Book Foundation and also the Urdu Dictionary Board. Fahmida authored of several books like Godaavari, Khatt-e Marmuz, Khana e Aab O Gil, Pathar ki Zaban, Dhoop, Badan Darida, Karachi, Adhoora Aadmi, Khule Dareeche Se, Qafle Parindon Ke, Gulabi Kabotar, etc. Apart from this she also translated the masnavi of Maulana Jalaluddin Rumi from Persian to Urdu, Shah Abdul Latif Bhitai and Shaikh Ayaz from Sindhi to Urdu and Rumi's shayari into Urdu.
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free