aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
شوکت تھانوی نے کئی اصناف سخن میں کامیاب طبع آزمائی کی ہے۔ناول ،افسانہ ،صحافت، مضمون نویسی،ڈرامہ نگاری اور طنزو مزح نگاری وغیرہ ۔ انھیں ہر صنف میں یکساں مقبولیت حاصل ہوئی۔ان کے مزاحیہ مضامین کی تعداد افسانوں سے کہیں زیادہ ہے۔ادب میں ان کا بنیادی رجحان مزاح نگاری کی طرف زیادہ رہا ،یہی وجہ ہے کہ ان کی ہر تحریر میں مزاح کے رنگ غالب ہیں۔عموما شوکت کی مزاح نگاری کے پس پردہ کوئی اصلاحی مقصد یا اخلاقی فلسفہ نظر نہیں آتا بلکہ وہ ایک معمولی موضوع میں الفاظ کے ذریعے مزاح پیدا کر کے قارئین کو ہنسانے کی کوشش کرتے ہیں۔زیر مطالعہ شوکت تھانوی کے ان ہی طنز ومزاحیہ مضامین پر مشتمل "بحر تبسم " ہے ۔جس میں ان کے مضامین منشی،چائے، ماسٹر صاحب،میز،ایڈیٹر ،السلام علیکم وغیرہ شامل ہیں۔جو نہایت ہی پرلطف اور دلچسپ ہیں۔
اتنی مقبولیت کم شہ پاروں کو نصیب ہوتی ہے جتنی شوکت تھانوی کے مزاحیہ افسانے’’سودیشی ریل‘‘ کو نصیب ہوئی۔ مضحکہ خیز واقعات سنا کر ہنسانے کا فن انہیں خوب آتا ہے۔ ان کے یہاں گہرائی نہ سہی مگر عام لوگوں کو ہنسانے کا مواد خوب مل جاتا ہے۔ تقریباً چالیس کتابیں لکھ کر انہوں نے اردو مزاحیہ ادب میں بہت اضافہ کیا۔
ان کا اصلی نام محمد عمر، والد کا نام صدیق احمد، سال ولادت 1905ء اور جائے پیدائش بندرابن تھا کیوں کہ ا کے والد یہاں کوتوال کی حیثیت سے متعین تھے حالانکہ ان کا وطن تھانہ بھون ضلع مظفر نگر تھا۔ محمد عمر نے جب شوکت قلمی نام رکھا تو وطن کی مناسبت سے اس پر تھانوی اضافہ کیا۔ اردو، فارسی کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی اور بمشکل ہوئی کیونکہ وہ پڑھنے کے شوقین نہیں تھے۔
والد ملازمت سے ریٹائر ہوئے تو ان کے ساتھ بھوپال اور پھر لکھنؤ چلے آئے۔ والدین نے مستقل رہائش کے لئے اسی جگہ کا انتخاب کر لیا تھا۔ یہیں شوکت تھانوی کی تصنیفی صلاحیت کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ اپنی تخلیقات کے لئے انہوں نے ظرافت کا انتخاب کیا۔ 1932ء کے آس پاس مزاحیہ افسانہ’’سودیشی ریل‘‘ لکھا تو شہرت چاروں طرف پھیل گئی۔ اسی شہرت کے سبب آل انڈیا ریڈیو میں ملازمت مل گئی۔ وفات سے پہلے پاکستان چلے گئے تھے۔ وہاں بھی ریڈیو کی ملازمت مل گئی تھی۔ لاہور میں 1963ء میں وفات پائی۔
لفظوں کے الٹ پھیر سے، لطیفوں سے رعایت لفظی سے، محاورے سے، املا کی ناہمواریوں سے اور زیادہ تر مضحکہ خیز واقعات سے شوکت تھانوی نے مزاح پیدا کرنے کی کوشش کی۔ ان کے طنزومزاح میں گہرائی نہیں بلکہ سطحیت ہے۔ اعلیٰ درجے کی تخلیق بہت غوروفکر اور بے حد محنت کے بعد ہی وجود میں آسکتی ہے۔ شوکت تھانوی کے یہاں ان دونوں چیزوں کی کمی ہے۔ ان کی تصانیف کی تعداد چالیس کے قریب ہے۔ اتنا زیادہ لکھنے والا نہ سوچنے کے لیے وقت نکال سکتا ہے اور نہ اپنی تحریروں پر نظر ثانی کرسکتا ہے۔ ظرافت کو فنکارانہ انداز میں پیش نہ کیا جائے تو وہ ہنسانے کی ایک ناکام کوشش بن کے رہ جاتی ہے۔ شوکت ہنسانے میں تو کامیاب ہیں مگر قاری کو غوروفکر پر مجبور نہیں کرتے حالانکہ ان کی تحریروں میں مقصدیت موجود ہے۔ وہ سماجی خامیوں اور انسانی سیرت کی ناہمواریوں کو دور کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے ان پر ہنستے ہیں اور ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ سودیشی ریل، تعزیت اور لکھنؤ کانگریس سیشن ان کی کامیاب کوششیں ہیں۔
موج تبسم، بحر تبسم، سیلاب، طوفان تبسم، سوتیاچاہ، کارٹون، بدولت، جوڑتوڑ، سسرال ان کی مشہور کتابیں ہیں۔ انہوں نے شاعری بھی کی، ریڈیو ڈرامے بھی لکھے اور ’’شیش محل‘‘ کے نام سے خاکوں کو ایک مجموعہ بھی پیش کیا۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets