aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
آپ کی پیدائش (15؍فروری 1942) اترپردیش کے زرخیز علاقہ، میمن سادات ضلع بجنور میں ہوئی۔ مغربی اترپردیش کا یہ علاقہ علمی اور ادبی اعتبار سے اپنی الگ شناخت رکھتا ہے۔ تقسیم ہند کے وقت جہاں ہم نے اپنوں کو کھویا وہیں ناگفتہ بہ حالات سے پریشان ہوکر بہت سارے علمی و ادبی گھرانے بھی ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔ عروجؔ اختر زیدی کا گھرانہ بھی تقسیم وطن کے وقت ہجرت کرکے پاکستان چلا گیا ۔آپ کا گھرانہ انتہائی تعلیم یافتہ تھا۔ ان کے والد پروفیسر اختر رضا زیدی مرحوم بھی کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔جن میں Mirror of History Biography of Imam Ali، خلافت کا عروج زوال، بیاضِ اختر،آئینہ تاریخ اسلام اور علیؑؑ،A Short History of Civilization خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔
عروج اختر زیدی نے ایم اے انگلش ، اور پی ایچ ڈی سیاسیات میں کی ہے، وہ ہمیشہ درس و تدریس سے وابستہ رہے ۔ ان کی اہلیہ شبانہ اختر زیدی ہیں۔ اولاد میں عالیہ عروج زیدی، عرشیہ عروج زیدی، احمر عروج زیدی ہیں۔ ان کی دو کتابیں ’’زرِ داغ ہائے دل‘‘ اور ’’بندگیٔ بو تراب‘‘ منظر پر آچکی ہیں۔ا نہیں مختلف ادبی اداروں کی طرف سے ایوارڈ مل چکے ہیں۔ پچھلے برس 8مارچ 2021 کو عروجؔ اختر زیدی اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets