aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
فارسی کے عظیم شاعر حضرت ابوالمعانی میرزا عبدالقادر بیدل دہلوی (عظیم آبادی) 1054ہجری بمطابق 1644عیسوی ،ہندوستان کے صوبہ بہار کے شہر عظیم آباد(موجودہ پٹنہ )میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق چغتائی ارلاس (برلاس) قوم سے تھا، بیدل کے والد گرامی میرزا عبدالخالق کا سلسلہ قادریہ سے وابستہ تھے، چنانچہ بیدل کا نام بھی غوث الاعظم حضرت عبدالقادر جیلانی کی نسبت سے "عبدالقادر" رکھا گیا۔ بیدل نے تصوف کے بنیادی نکات کی تعلیم میرزا قلندر سے حاصل کی تھی مگر بعد میں انہوں نے تقریباً تمام ائمہ کرام تصوف کا باقاعدہ مطالعہ کیا یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں دیگر موضوعات کے علاوہ تصوف کا موضوع بھی بھر پور شکل میں سامنے آتاہے۔بیدل کے کلام میں تصوف کے علاوہ فلسفہ و فکر کا عنصر نمایاں ہے۔وہ زندگی ، وجود، کائنات اور فطرت کی رنگارنگی کےحوالےسےایک الگ نظریہ رکھتے ہیں، اسی وجہ سے بعض اوقات ان کے اشعار میں فلسفیانہ مضامین قارئین کی فکر رسا کے لئے مسئلہ بن جاتے ہیں،تاہم بیدل خود ہی اس کی وضاحت جگہ جگہ کرتے رہتے ہیں، بید ل کے حوالے سے ہندوستان اور ایران دونوں ملکوں میں کافی کچھ لکھا گیا ،تاہم بیدل شناسی کے حوالے سے جن کتابوں کو اہمیت حاصل ہے ان میں سے ایک کتاب آپ کے سامنے ہے ، اس کتاب میں بیدل کے کلام کو پیش کرتے ہوئے ان کی سوانحی حالات کو بھی اجاگر کیا گیا ہے ، کتاب کے شروع میں ہی خود بیدل کی لکھی ہوئی خود نوشت سوانح حیات "چہار عناصر" کے بارے میں کافی عالمانہ گفتگو کی گئی ہے جو بیدل شناسی میں اہم کردار ادا کرتی ہے، تذکروں نویسوں نے بیدل کو جس نظر سے دیکھا، اس کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے ، اس کے بعد بیدل کی مثنویوں ، رباعیوں اور دیوان بیدل پر تحقیقی مواد پیش کیا گیاہے۔