aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
گیتا کا یہ اردو ترجمہ ہے ۔ اگرچہ گیتا کے تمام زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں اور اسے سب سے پہلے فارسی نظم کا جامہ فیضی فیاضی نے پہنایا تھا۔ یہ ترجمہ اس لئے کیا گیا کیوں کہ بہت سے اردو کے قاری جو سنسکترت ،ہندی نہیں سمجھ سکتے مگر یہ چاہتے ہیں کہ وہ ہندو مت اور خاص طور پر شری کرشن کے اپدیشوں کو پڑھیں اور اس سے گیان حاصل کریں ۔ ان لوگوں کے لئے ایک نایاب تحفہ ہے یہ ترجمہ ۔ اس میں کورو اور پانڈو کی داستان پھر ان کی آپس میں لڑائی اور ارجن تیر انداز کا کرشن جی کا ساتھ دینا کو کانڈوں کے ذریعہ بیان کیا گیا ہے۔ خاص طور پر کرشن جی کے وہ اپدیش جو اس وقت ارجن کو دئے گئے تھے جب ارجن میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ جانا چاہتے تھے ان کو پڑھ کر انسان پر بہت سے علوم کے درازے وا ہو جاتے ہیں اور وہ ظالم نہ بن کر پرشرمی بن جاتا ہے ۔ یہ گیتا کا منطوم ترجمہ ہے جس کو منور لکھنوی نے انجام دیا ہے۔
منور لکھنوی شاعر تو تھے ہی ، شاعری انہیں ورثے میں ملی تھی لیکن اس کے ساتھ ان کی پہچان کا ایک بڑا حوالہ ہندی اور سنسکرت زبان سے کئے گئے ان کے تراجم ہیں ۔ منور لکھنوی کو اردو ، فارسی ، ہندی اور سنسکرت زبان پر عبور حاصل تھا ۔
منور لکھنوی کا نام منشی بشیشور پرشاد تھا ۔ منور تخلص کرتے تھے ۔ ان کی پیدائش لکھنو میں 8 جولائی 1897 کو ہوئی ۔ ان کے والد منشی دوارکا پرشاد افق کا شمار لکھنؤ کے معززین میں کیا جاتا تھا ۔ وہ بھی شاعری کرتے تھے ۔ منور لکھنوی عمر بھر محکمہ ریلوے سے وابستہ رہے اور مختلف مقامات پر تبادلہ ہوتا رہا ۔ 1927 میں وہ دلی آگئے اور پھر یہیں سے ملازمت سے سبکدوش ہوئے ۔
منور لکھنوی کی شاعری اپنے موضوعات اور زبان کے لحاظ سے اپنے معاصر شعری منظرنامے میں بہت الگ نظر آتی ہے ۔ اس کی وجہ ان کے تخلیقی عمل کی تہہ میں موجود فارسی ، ہندی اور سنسکرت زبان کی علمی روایت ہے ۔ منور لکھنوی کے کئی شعری مجموعے چھپے ۔ ان کے تراجم کی تعداد بھی خاصی ہے ۔ انہوں نے رامائن ، بھگوت گیتا اور دوسرے بہت سے مذہبی وغیر مذہبی متون کا منظوم ومنثور ترجمہ کیا ۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets