aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
مثنوی معنوی حضرت مولانا رومی کی عالمی شہرت یافتہ مثنوی ہے جسے بلا شک و شبہ ہم عالمی ادب کے مقابلہ میں رکھ سکتے ہیں۔ مثنوی کیا پہلوی زبان کا قرآن ہے ۔جس کے بارے میں خود ہی مولانا رومی فرماتے ہیں کہ میں نے قرآن سے اس کا مغز اکٹھا کر دیا ہے ۔ رومی کی یہ مثنوی ادبی لحاظ سے بہت ہی اعلی درجہ رکھتی ہے۔ اس میں متصوفانہ مضامین کی بھرمار ہے ۔مولانا نے اس کو حسام الدین چلپی کی فرمائش پر نظم کیا بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ الحام ہوئی۔ آج مثنوی معنوی دنیا کی ہر بڑی زبان میں ترجمہ ہو چکی ہے اور اس کو بہت ہی شوق سے پڑھا جاتا ہے اور اپنے دل کو سکون پہونچایا جاتا ہے۔ اردو زبان میں بھی متعدد بار اس مثنوی کے تراجم ہو چکے ہیں۔جن میں قاضی سجاد حسین کا ترجمہ خاصہ مقبول ہے۔ اشرف علی تھانوی کی تقاریر جو کہ کلید مثنوی سے شایع ہو چکی ہے کا بھی الگ مزہ ہے۔ اسی کڑی کی ایک لڑی یہ ترجمہ بھی ہے جسے عبد المجید صاحب نے ترجمہ کیا ہے ۔ زیر نظر ترجمہ دفتر دوم کا ترجمہ ہے ۔ ترجمہ نہایت ہی صاف و سلیس کیا گیا ہے۔ مگر اپنے زمانے کی قدامت کی وجہ سے تھوڑا زبان کی شستگی میں رکاوٹ ہوتی ہے۔
آپ افغانستان کے شہر بلخ میں 30 ستمبر 1207ءمیں پیدا ہوئے۔ محمد نام تھا۔ شیخ بہاوالدین آپ کے والدِ گرامی ایک بلند پایہ صوفی اورعالم تھے۔ جلال الدین آپ کا لقب تھا۔ زندگی کے آخری چند سال ترکی کے مشہو ر شہر قونیہ میں گزارے۔ آپ کی ساری زندگی سفر میں گزری۔ بلخ سے لارندہ پھر دمشق اور حلب اس کے بعد بغداد اور پھر اپنے وطن حجاز میں جا پہنچے، یہ آپ کا اصلی وطن تھا کیونکہ آپ نسلاً حضرت ابوبکر صدیق کی اولاد میں سے ہیں۔ آخر کار قونیہ میں قیام پذیر ہوئے، وصال مبارک 17 دسمبر 1273ء میں ہوا۔ قونیہ میں آپ کا مزار شریف آج بھی مقناطیس کی طرح ساری دنیا کے صاحبانِ فکر و نظر کے قلوب کو کھینچ رہا ہے۔
رومی کی شخصیت اور ان کا کلام دونوں ہی کسی تعارف کے محتاج نہیں، چھبیس ہزار چھ سو چھیاسٹھ اشعار پر مبنی ان کی مشہور زمانہ مثنوی تصوف اور عشق الہی کے جملہ موضوعات کو انتہائ سادگی روحانی اور عام فہم انداز مین بیان کرتی ہے، عشق الہی اور معرفت کے انتہائی مشکل و پیچیده نکات سلجھانے کے لئے رومی نے سبق آموز حکایات و قصے کہانیوں سے مدد لی ہے جو بھی لکھا ہے، قرآن و حدیث نبوی سے اس کی سند بھی بیان کی جاتی ہے اس لئے آج آٹھ سو سال گزر جانے کے باوجود ان کے کلام کی اہمیت و افادیت میں کوئ کمی واقع نہیں ہوئی۔
آپ کے والد بزرگوار بهاؤ الدین اپنے دور کے مشہور علما میں شمار کئے جاتے تھے، حتی کے ان حلقۂ درس میں حاکم وقت خوارزم شاه بھی شرکت کیا کرتے تھا۔ وحشی منگولوں کے حملوں کے منڈلاتے خطرات کے پیش نظر رومی کے خاندان نے بلخ کو خیر باد کها اور پناه کی تلاش میں انا طولیہ کی راه لی، راستے میں نیشاپورمیں رکے جہاں مشہور صوفی بزرگ عطار نیشاپوری سے ملاقات کی، عطا بڑے قیافہ شناس تھے۔
رومی کو دیکھ کر سمجھ گئے که آگے چل کر یه بچہ عشق و معرفت کی دنیا میں دھوم مچا دے گا۔ چنانچہ انہوں نے بهاؤالدین کو ان کی تربیت پر خصوصی توجہ دینے کی ہدایت کی۔ حج کی سعادت حاصل کرتے ہوئے بہاؤالدین اناطولیہ پهنچے جہاں کے سلجوتی حاکم علاؤالدین کیقباد نے ان کا پرتپاک استقبال کیا۔ قونیہ میں بهاؤالدین نے ایک مدرسے میں تدریس شروع کی اور بهت جلد مشہور ہوگئے، ان کے انتقال کے بعد رومی نے والد کی گدی سنبھال لی۔ حلقۂ درس میں شریک ہونے والے حاکم وقت اور اعیان دولت ان سے بے انتہا عقیدت رکھتے تھے۔
رومی کی زندگی بڑے سکون سے گزررہی تھی، ایک دن گرمیوں کی صبح وه حوض کے پاس معمول کے مطابق درس دے رہے تھے، ایک خوانچہ فروش حلوه بیچتا ہوا مدرسے کے احاطے میں آگیا۔ اپنے اطراف اور ماحول سے بے پرواه اور بے خبر اس جگہ جا کر کھڑا ہوگیا جہاں مولانا تدریس میں مشغول تھے، خوانچہ فروش نے تعجب سے پوچھا کہ یہ سب کیا ہے، کیا ہو رہا ہے، مولانا نے بڑے تحمل سے کہا یہ تم نہیں جانتے جاؤ، اپنا کام کرو۔ وه آگے بڑھا اور کتاب مولانا کے ہاتھ سے لے کر اٹھا اور حوض میں پھینک دی۔ مولانا نے کہا یہ تم نے کیا کیا۔ میں نے تو کچھ بھی نهیں کیا۔ یہ کہہ کر اس نے حوض سے کتاب نکال کر رومی نے حیرت سے پوچھا، یه کیا ہے، اب باری اس کی تھی، یه تم نہیں جانتے یہ کہ کر اس نے اپنا خوانچہ اٹھایا اور اسی طرح صدا لگاتا ہوا باہر چلا گیا۔ یہ حضرت شمس تبریز تھے۔ مولانا رومی، شمس تبریز کو اپنے ساتھ لے آئے۔ انہوں نے علم کی انتہائی اعلیٰ منازل طے کررکھی تھیں، اب عشق الہی و معرفت کے سفر کا آغاز کیا جس میں قدم قدم پر انہیں اپنے مرشد شمس تبریز کی راه نمائی حاصل تھی۔ مولانا رومی نے رفته رفته اپنا رابطہ اپنے ماحول اور گردو پیش سے منقطع کرلیا۔ بس وه تھے اور شمس تبریز کی صحبت۔ یہ صورت حال ان کے شاگردوں کے لیے کسی طرح بھی قابل قبول نہ تھی۔ چنانچہ شمس تبریز انکے نزدیک متنازع شخصیت بن گئے، شاگردوں و عقیدت مندوں کے بدلتے ہوئے تیور دیکھ کر ایک رات اچانک حضرت شمس تبریز غائب ہوگئے۔ بعض روایات کے مطابق انہیں شہید کردیا گیا۔
شمس تبریز کی جدائی مولانا رومی کے لیے ناقابل برداشت تھی۔ اپنے مرشد کے فراق میں خود و ارفتگی کے عالم میں انہوں نے فی البدیہہ شعر کہنا شروع کردیئے۔ یوں عرفان و آگہی کی مضبوط ترین دستاویز مثنوی تخلیق ہوئی۔
اس مثنوی کے علاوه مولانا رومی کا دیوان کبیر جو چالیس ہزار اشعار پر مشتمل ہے، جس میں بائیس شعری مجموعے بشمول دیوان شمس تبریز عربی، ترکی اور یونانی زبانوں میں ان کا کلام۔ تصوف پر ایک کتاب فی مافیه، مجالس سبع اور مکتوبات، ایسی کتابیں ہیں جو ان کے نام کو صوفیانہ ادب میں ہمیشہ روشن اور تابنده رکھیں گی۔
ہر سال ستره دسمبر کو مولانا کا عرس (شب عروس) کے نام سے قونیہ میں منعقد کیا جاتا ہے۔
قارئین مولانا سلوک کی اس منزل پر پهنچ چکے تھے که انہیں ہر طرف الله ہی کا جلوه نظر آتا تھا جو قرآن کی آیت (الله نور السموات و الارض) کی گویا تفسیر ہے وه حسن و زیبائی کے کائناتی، ملکاتی اور الہامی تصور کے علم بردار تھے، الله تعالی نے محبت رسول الله سے شیفتگی کے اس مرتبے پر پهنچ چکے تھے، جہاں ان کی اپنی ہستی معدوم ہوچکی تھی۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets