aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
انار کلی اور چچا چھکن دو ایسے کردار ہیں جن سے صرف اردو دنیا نہیں بلکہ دیگر زبانوں اور معاشروں سے تعلق رکھنے والے افراد بھی واقف ہیں۔ یہ دونوں ایسےناقابل فراموش کردار ہیں جو ہمارے اجتماعی شعور کا حصہ بن چکے ہیں۔ ان دو اہم کردار کے خالق سید امتیاز علی تاج ہیں۔
امتیاز علی تاج کا پورا خاندان ہی ہمہ آفتاب ہے۔ ان کے دادا سید ذوالفقار علی سینٹ اسٹیفنز کالج دہلی کے فیض یافتہ اور امام بخش صہبائی کے شاگرد تھے۔ ڈپٹی انسپکٹر اسکول رہے اس کے بعد اسسٹنٹ کمشنر کے عہدے پر فائز ہوئے ۔ ان کے والد ممتاز علی شیخ الہند مولانا محمودحسن کے ہم درس اور سر سید احمد خاں کے عزیز دوست تھے۔ ایک ایسے صحافی اور ادیب جنہیں اردو کا پہلا فمینیسٹ(Feminist) کہا جاتا ہے۔ انہوں نے ہی خواتین کے لیے ’تہذیب نسواں‘ جیسا رسالہ شائع کیا۔ بچوں کے لیے’پھول‘ کے نام سے اخبار نکالا اور دارالاشاعت پنجاب جیسا ادارہ قائم کیا جہاں سے کلاسیکی معیاری کتابیں شائع ہوئیں۔ امتیاز علی تاج کی والدہ محمدی بیگم’ تہذیب نسواں‘ اور ’مشیر مادر‘ کی مدیر تھیں تو ان کی شریک حیات حجاب امتیاز علی اپنے وقت کی نامور افسانہ نگار اور بر صغیر کی پہلی پائلٹ خاتون تھیں۔
اسی ممتاز خانوادے میں 13ا کتوبر 1900 میں امیتاز علی تاج کا جنم ہوا۔گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے آنرز کیا اور پھر ایم اے انگریزی میں داخلہ لیا مگر امتحان نہ دے سکے۔ تاج کالج کے ذہین ترین طالب علم تھے۔ اپنے کالج کی ثقافتی و ادبی سرگرمیوں میں متحرک اور فعال رہتے تھے۔ ڈرامہ اور مشاعرہ سے انہیں خاص دل چسپی تھی۔ شاعری کا شوق بچپن سے تھا۔ غزلیں اور نظمیں کہتے تھے۔تاج ایک اچھے افسانہ نگار بھی تھے۔ انہوں نے 17سال کی عمر میں ’شمع اور پروانہ‘ کے عنوان سے پہلا افسانہ لکھا۔تاج ایک عمدہ ترجمہ نگار بھی تھے۔ انہوں نے آسکر وائلڈ، گولڈ اسمتھ، ڈیم تر یوس، مدرس تیول، کرسٹین گیلرڈ وغیرہ کی کہانیوں کے ترجمے کیے ہیں ۔
امتیاز علی تاج نے ادبی اور سوانحی نوعیت کے مضامین بھی لکھے ہیں۔ اردو میں گاندھی جی کی سوانح ’بھارت سپوت‘ کے عنوان سے لکھی، جس کا دیباچہ پنڈت موتی لال نہرو نے لکھا تھا۔ اور کتاب کی بڑی تعریف کی تھی۔ محمد حسین آزاد، حفیظ جالندھری اور شوکت تھانوی پر ان کے مضامین بہت اہمیت کے حامل ہیں۔
تاج ایک معتبر اور مستند صحافی بھی تھے۔ انہوں نے اپنا صحافتی سفر ’’تہذیب نسواں‘‘ سے شروع کیا تھا۔ 18سال کی عمر میں ’کہکشاں‘ کے نام سے ایک ماہنامہ رسالہ بھی شائع کیا جس نے بہت مختصر عرصہ میں اپنی پہچان قائم کی۔
امتیازعلی تاج کی شخصیت بڑی متنوع تھی۔ انہوں نے مختلف میدانوں میں اپنی ذہانت کے ثبوت دئے، ریڈیو فیچر لکھے، فلمیں لکھیں، ڈرامے لکھے مگر سب سے زیادہ شہرت انہیں ڈرامہ ’انارکلی‘ سے ملی۔یہ ان کا شاہکار ڈرامہ تھا، جو نصابوں میں شامل کیا گیا۔ جس پر بے شمار فلمیں بنیں آج بھی جب انارکلی کا ذکر آتا ہے تو امتیاز علی تاج کی تصویر ذہن میں ابھرتی ہے۔ اس ڈرامہ میں جس طرح منظر نگاری،کردار نگاری اور مکالمے ہیں اس کی داد سبھی نے دی ہے۔ یہ ڈرامہ آج مختلف جامعات میں تحقیق کا موضوع بنا ہوا ہے۔
امتیاز علی تاج نے صرف ڈرامہ’ انار کلی ‘نہیں بلکہ اور بھی کئی ڈرامے لکھے ہیں ساتھ ہی ڈراموں کے انتخابات بھی شائع کیے ہیں، خاص طور پر کلاسیکی ڈراموں کی اشاعت پر ان کی خصوصی توجہ رہی۔ آرام، ظریف اور رونق کے ڈرامے انہوں نے ہی مرتب کیے۔ مجلس ترقی ادب لاہور سے وابستگی کے بعد انہوں نے کئی جلدوں پر مشتمل ڈراموں کے انتخابات شائع کئے۔ اس طرح انہوں نے کلاسیکی ڈراموں کی بازیافت میں اہم کردار ادا کیا۔
امتیاز علی تاج کے ڈراموں کے علاوہ فلموں بھی دل چسپی لی۔ کہانیاں، منظرنے اورمکالمے لکھے۔فلمیں بھی بنائیں۔ ان کی فلم کمپنی کا نام ’تاج پروڈکشن لمیٹیڈ ‘تھا۔
امتیاز علی تاج کی شخصیت بہت بلند تھی۔ اس لیے وہ سازشوں اور ریشہ دوانیوں کے شکار بھی ہوئے ۔ان کی زندگی کے آخری لمحے بہت دردناک ہیں۔18اپریل 1970 کی ایک رات جب وہ تھکے ماندے چھت پر لیٹے ہوئے تھےقریب ہی شریک حیات حجاب امیتاز علی سو رہی تھیں کہ دو آدمی منہ پر دھانٹا باندھے ہوئے اور چاقو لیے ہوئے آئے اور تاج پر حملہ کر دیا۔ تاج کو کافی زخم آئے اور خون بھی بہا، اسپتال میں ان کا آپریشن کیا گیا۔ وہ خطرے سے باہر بھی آئے،ا نہیں ہوش بھی آیا مگر آہستہ آہستہ سانس رکنے لگی اور 19 اپریل 1970 کو انتقال کر گئے۔ ان کے قاتلوں کو نہ گرفتار کیا جا سکا اور نہ ہی مقدمہ کی تفتیش کا کوئی نتیجہ بر آمد ہوا۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets