aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
نصف صدی تک قرۃ العین حیدر ناول کی دنیامیں چھائی رہتی ہیں جس کے نتیجے میں اردو ادب کو کئی لازاول ناول ملتے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے ۔ ان کے دیگر ناولوں کی طر ح اس ناول کا موضوع بھی زندگی ، زمانہ ،زمین ، وقت اور موت ہے ۔ لیکن یہ آگ کی دریا کی طر ح سراسر فلسفیانہ اور نہ ہی علامتی ناول ہے ، نہ ہی اس کا کینویس غیر معمولی طور پر وسیع ہے ۔ یہ ناول تقسیم ہند سے چند برس قبل سے شروع ہوکر چالیس پنتالیس بر س تک کا احاطہ کرتا ہے ۔ اس میں لکھنو، ممبئی ، کلکتہ اور دیگر شہرو قصبات ہیں لیکن دیگر کرداروں کے توسط سے ہندوستان سے باہر کی دنیا بھی ہے ۔ اس ناول کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ فطرت کے مظاہر اور زندگی کے نشیب و فراز کی ایک کولاژ ہے جو بظاہر ایک دوسرے پر چسپاں بھی ہے اور ایک دوسرے کی وضاحت بھی کرتی ہے ۔ دوسری خصوصیت یہ ہے کہ ڈرامائی عناصر اور تکنیک کا استعمال ہے جس سے اس ناول کے اسٹرکچر میں بھی ڈرامائی کیفیت در آئی ہے ۔ الغرض اگر آپ فکشن سے دلچسپی رکھتے ہیں تو پھر قرۃ العین حید ر کی کسی تحریر کو کیسے چھو ڑ سکتے ہیں ۔
قرۃ العين حيدر 20 جنوری، 1926ء میں اتر پردیش کے شہر علی گڑھ میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد سجاد حیدر یلدرم اردو کے پہلے افسانہ نگار شمار کیے جاتے ہیں۔ تقسیم ہند کے بعد قرۃ العین حیدر کا خاندان پاکستان چلا گیا۔ 1959ء میں ان کا ناول آگ کا دریا منظر عام پر آیا جس پر پاکستان میں بہت ہنگامہ ہوا۔ اس کے فوراً بعد انہوں نے بھارت واپس جانے کا فیصلہ کیا جہاں وہ بطور صحافی کام کرتی رہیں اور افسانے اور ناول بھی لکھتی رہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے ادبی تراجم بھی کیے۔ ان کی کتابوں کی تعداد 30 سے زیادہ ہے۔ انہوں نے 1964ء تا 1968ء ماہنامہ امپرنٹ کی ادارت کی اور السٹریٹیڈ ویکلی آف انڈیا میں اداریہ لکھتی رہیں۔ ان کی کتابیں انگریزی اور دیگر زبانوں میں ترجمہ ہوئی ہیں۔ ان کے سبھی ناولوں اور کہانیوں میں تقسیم ہند کا درد صاف نظر آتا ہے۔ ان کے دو ناولوں آگ کا دریا اور آخر شب کے ہم سفر کو اردو ادب کا شاہکار مانا جاتا ہے۔
آخرِ شب کے ہم سفر کے لیے 1989ء میں انہیں بھارت کے سب سے باوقار ادبی اعزاز گیان پیٹھ انعام سے بھی نوازا گیا جبکہ بھارتی حکومت نے انہیں 1985ء میں پدم شری اور 2005ء میں پدم بھوشن جیسے اعزازات بھی دیے۔ 11 سال کی عمر سے ہی کہانیاں لکھنے والی قرۃ العین حیدر کو اردو ادب کی ورجینیا وولف کہا جاتا ہے۔ انہوں نے پہلی بار اردو ادب میں سٹریم آف کونشیئسنس تکنیک کا استعمال کیا تھا۔ اس تکنیک کے تحت کہانی ایک ہی وقت میں مختلف سمت میں چلتی ہے۔ ان کی وفات 21 اگست 2007ء کو نوئیڈا میں ہوئی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قبرستان میں مدفون ہوئیں۔
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free