Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مصنف : حامد الانصاری انجم

اشاعت : 004

ناشر : سہیل انجم

مقام اشاعت : انڈیا

سن اشاعت : 2015

زبان : Urdu

صفحات : 97

معاون : سہیل انجم

چراغ حرم
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

مصنف: تعارف

 ڈاکٹرمولانا حامد الانصاری انجم تعلیمی اسناد کے مطابق 15 مئی 1932 کو موضع کرنجوت بازار ضلع بستی (موجودہ ضلع سنت کبیر نگر) میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ کا انتقال 17 فروری 2013 کو آپ کے آبائی وطن میں ہوا۔ آپ کا پیدائشی نام عبد الحمید تھا۔ بعد میں آپ حامد الانصاری انجم اور انجم جمال اثری سے معروف ہوئے۔ رفتہ رفتہ حامد الانصاری انجم نام آپ کی شناخت بن گیا۔ مولانا مرحوم کی ابتدائی تعلیم گاؤں ہی میں ہوئی۔ انھوں نے ناظرہ قرآن اور اردو کی ابتدائی کتابیں اپنے والد ماجد جناب جان محمد انصاری سے پڑھیں۔ مکتبی تعلیم سے فراغت کے بعد عربی وفارسی کی تعلیم کے لیے انہوں نے مدرسہ دار العلوم فتح پور تحصیل بانسی ضلع بستی (اب سدھارتھ نگر) میں داخلہ لیا۔ فتح پور کے بعد اونچہرا ضلع بستی میں مولانا عبید الرحمن صاحب کے مدرسے میں داخل ہوئے۔ بعد میں نیپال کی مشہور ومعروف تعلیمی درس گاہ مولانا عبد الروف جھنڈا نگری کے مدرسہ سراج العلوم جھنڈا نگر کا رخ کیا۔ یہاں کچھ ہی دن قیام کرنے کے بعد دوبارہ فتح پور کے مدرسے میں واپس آگئے اور ہدایہ اولین تک مولانا شمس الحق (شاگرد علامہ شبیر احمد عثمانی) سے تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد مفتاح العلوم بھٹ پرا میں مولانا خلیل الرحمن صاحب مرحوم سے دیگر فنون کی درسی کتابوں کے ساتھ ساتھ سنن اربعہ، مشکوة المصابیح اور جلالین پڑھی۔ اعلی دینی تعلیم کی خاطر وہ دہلی چلے گئے اور مدرسہ ریاض العلوم جامع مسجد میں داخلہ لیا اور شیخ الحدیث مولانا عبد السلام بستوی سے حدیث وفقہ کی کتابیں پڑھیں اور وہیں سے 1951 میں فارغ التحصیل ہوئے۔انھوں نے بلی ماران میں واقع طبیہ کالج میں ایڈمیشن لیا جہاںسے انھوںنے 1955 میں فاضل الطب والجراحت کی ڈگری حاصل کی۔اس کے بعد انھوں نے دہلی کو خیرباد کہہ دیا او راپنے وطن لوٹ آئے۔ جہاں انھوں نے ”مدرسہ مدینة العلوم “ کے نام سے ایک مدرسے کی بنیاد ڈالی جو آج بھی قائم و دائم ہے۔ لیکن وہ زیادہ دنوں تک مدرسے کے ذمہ دار نہیں رہے۔ ہند نیپال کے سرحدی ترائی علاقے کو انھوں نے اپنا میدان عمل بنا لیا۔ مختلف مقامات پر مدارس کا قیام کیا اور دینی تعلیم کی روشنی پھیلائی۔ وہ کئی مدارس کے ساتھ ساتھ متعدد مساجد کے بھی موسس رہے۔
 اخبار ”الجمعیة“ دہلی اور ”مدینہ“ بجنور کے مطالعے نے آپ کے اندر شعر گوئی کا شوق پیدا کیا اور اس طرح انھوں نے طبع آزمائی شروع کر دی۔ڈاکٹر مولانا حامد الانصاری انجم نعت گوئی کے میدان میں ایک ممتاز مقام رکھتے ہیں۔ ایسے شعراءبہت کم ملیں گے جنھوں نے اپنی شعری صلاحیتوں اور تخلیقی قوتوں کو صرف اور صرف نعت گوئی کے لیے وقف کررکھا ہو۔ ان کی نعتیہ شاعری کے متعدد پہلو ہیں ہر پہلو انتہائی جاذب اور پُرکشش ہے اور گہرے تجزیے کامتقاضی ہے۔ مولانا انجم صاحب کے گیارہ شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں جن میں بیشتر نعتیہ او راسلامی نظمو ںکے مجموعے ہیں۔ ان کا پہلا نعتیہ مجموعہ ”چراغ حرم“ کے نام سے 1969میں شائع ہوا جو بے حد مقبول ہوا اور انتہائی قلیل مدت میں نایاب ہو گیا۔ مقامی شعرا اس کی نقالی کرنے لگے او رجب ایک نو آموز شاعر نے اسی نام سے اپنا نعتیہ مجموعہ شائع کیا تو آپ نے اپنے مجموعہ کا نام بدل کر ”شمع حرم“ رکھ دیا اور اس کی اشاعت 1986 میں عمل میں آئی۔ وہ بھی کچھ دنوں میں نایاب ہو گیااور” چراغ حرم“ کی مانگ برابر جاری رہی۔ بعد میں”چراغ حرم“ ہی کے نام سے اس کا تیسرا ایڈیشن فروری 2003میں شائع ہوا۔
آپ کے دیگر مجموعوں کی تفصیل اس طرح ہے: ”منار حرم“ اشاعت اول 1977 اشاعت دوم فروری 2003۔ ”وقت کی پکار“ اشاعت اول 1961 (رسالہ ترجمان) اشاعت دوم 1976، اشاعت سوم ستمبر2003۔ یہ ایک طویل نظم ہے اور اسے مولانا نے 1961 میں نوگڑھ ضلع بستی میں منعقد ہونے والے آل انڈیا اہلحدیث کانفرنس میں پڑھا تھا۔ ”بچوں کے نغمے“ 1990۔ ”نغمہ زار انجم“اکتوبر 2001۔ ”نعت کے پھول“ ستمبر 2004۔ ”لاہوتی نغمے“ ستمبر 2004۔ ”اسلامی ترانے“ ستمبر2004۔ ”بربط انجم“ نومبر 2004۔ ”مدح صحابہ“2006۔ آپ کے غیر مطبوعہ مجموعے اس طرح ہیں : ”تاجدار حرم“ (نعتیہ مجموعہ) ” منبر و محراب“ (اسلامی نظموں کا مجموعہ) ”سالار بیت الحرام“ (منثور سیرت) ”خطبات انجم“ (تقاریر کا مجموعہ)۔ آپ نے تین اخبارات و رسائل بھی جاری کیے تھے جو یکے بعد دیگرے کئی برسوں تک نکلتے رہے۔ ان کے نام ہیں : الہلال، الموتمر اور خبرنامہ۔

آپ کی دینی، علمی، ادبی اور صحافتی خدمات کے اعتراف میں مرکزی جمعیت اہلحدیث ہند نے 2004 میں اپنی 28ویں آل انڈیا کانفرنس منعقدہ پاکوڑ جھارکھنڈ میں تصنیفی سند اور ایوارڈ سے نوازا تھا۔ آپ کی حیات و خدمات پر آپ کے چھوٹے بیٹے ڈاکٹر شمس کمال انجم نے ”نقوش جاوداں“ کے نام سے ایک تذکرہ تصنیف کیا ہے جو 2008 میں دہلی سے شائع ہوا ہے۔آپ کے دوسرے بیٹے سہیل انجم نے آپ کی حیات و خدمات پر ”انجم تاباں“ کے نام سے ایک سوانحی کتاب تحریر کی ہے جو 2013 میں شائع ہوئی۔ ”نقوش انجم“ (2021) کے نام سے سہیل انجم نے ایک کتاب بھی مرتب کی ہے جس میں مختلف نمائندہ اہل علم کے مضامین شامل ہیں۔ عالمی یوم اردو یادگاری مجلہ بھی آپ کی جملہ خدمات پر 2017 میں شائع ہو چکا ہے۔ مولانا انجم کے تمام مطبوعہ و غیر مطبوعہ کلام ‘‘کلیات انجم’’ کے نام سے ڈاکٹر شمس کمال انجم نے 2019 میں شائع کیا ہے۔

.....مزید پڑھئے
For any query/comment related to this ebook, please contact us at haidar.ali@rekhta.org

مصنف کی مزید کتابیں

مصنف کی دیگر کتابیں یہاں پڑھئے۔

مزید

مقبول و معروف

مقبول و معروف اور مروج کتابیں یہاں تلاش کریں

مزید

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے