aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
منیر نیازی عصر حاضر کے منفرد شاعر ہیں۔اس کی ایک وجہ ان کی تیز دھار انفرادیت ہے جو پھیل کر انانیت تک بھی پہنچ جاتی ہے ۔مگر منیر نیازی کی انا ایک بیراگی کی نہیں ہے۔وہ خاص واردات ،خاص تجربات کی انا ہے۔منیر نیازی کی شاعری بظاہر بہت سلیس ،بہت سیدھی سادی ہے مگر بین السطور اتنی گھمبیر ہے۔زیر نظر "چھ رنگیں دروازے "منیر نیازی کا شعری مجموعہ ہے۔جس میں ان کی نظمیں اور غزلیں شامل ہیں۔جس کے مطالعے سے پہلا تاثر یہی پڑتا ہے کہ شاعر اپنے مشاہدے کے کمالات دکھا رہا ہےمگر مزید مطالعہ کے بعد یہ احساس ہوتا ہے کہ ان کا کلام جذبات واحساسات کے رنگوں سے سجا ہوا ہے۔جو محض مشاہدے کی شاعری نہیں ہے ،یہ مشاہدات تو صرف ان کے محسوسات کے لیے پس منظر فراہم کرتے ہیں۔ان کے کلام میں فارسی اور اردو شاعری کی خاص اصطلاحات و تراکیب کا استعمال بھی خوب ہے۔لیکن ان کی لفظیات ان کی اپنی ہیں۔
میں منیرنیازی کو صرف اک بڑا شاعر تصوّر نہیں کرتی، وہ پورا ’’اسکول آف تھاٹ‘‘ ہے جہاں ہیولے، پرچھائیں، دیواریں، اُن کے سامنے آتے جاتے موسم، اور ان میں سرسرانے والی ہوائیں، کھلے دریچے، بند دروازے، اداس گلیاں، گلیوں میں منتظر نگاہیں، اتنا بہت کچھ منیر نیازی کی شاعری میں بولتا، گونجتا اور چپ سادھ لیتا ہے کہ انسان ان کی شاعری میں گم ہو کر رہ جاتا ہے۔ منیرکی شاعری حیرت کی شاعری ہے، پڑھنے والا اونگھ ہی نہیں سکتا
( بانو قدسیہ)
بیسویں صدی کی آخری نصف دہائی کو منیر نیازی کا عہد کہا جا سکتا ہے۔ انھوں نے اپنی اردو اور پنجابی کی شاعری کے ذریعہ کم از کم تین نسلوں پر گہرے اثرات مرتب کئے اور اپنے وجود کے ایسے گہرے نقش بٹھائے کہ وہ اپنے عہد کے لیجنڈ بن گئے اور ان کی شاعری کلاسیک کا درجہ پا گئی۔ انھوں نے اردو کی کلاسیکی روا یت یا دبستان کا اثر نہیں قبول کیا بلکہ اک نئے دبستان کی طرح ڈالی جس کی تقلید تقریبا ناممکن ہے کیونکہ وہ اک طلسماتی جزیرہ ہے جس کا نظارہ باہر سے ہی کیا جا سکتا ہے اور اگر کوئی اندر گیا تو اس میں گم ہو کر رہ جاتا ہے۔ ان کی شاعری اک طلسم خانۂ حیرت ہے۔ ان کی شاعری پورے عہد کے احساس اور رویّوں کا عطر ہے۔ وہ اپنے عہد اور اس کے رویّوں کی تشریح نہیں کرتے بلکہ چند سطور اور چند لفظی تصویروں میں اپنے عہد اور اس میں جینے والے انسانوں کے احساسات اور رویوں کی اصل بنیاد کی طرف اشارہ کر دیتے ہیں پھر ان سے معانی کی طویل داستانیں خود بخود مرتب ہوتی چلی جاتی ہیں۔ معانی کی ان ہی امکانی سطحوں کی بدولت منیر کی شاعری ہمہ گیر اور ہمہ جہت ہے اور ہر شخص اپنی توفیق و صلاحیت کے مطابق سمتیں تلاش کر سکتا ہے۔ ان کی شاعری میں انسانی زندگی کے جہنم جیسا میدان بھی ہے اور انسان کی کھوئی ہوئی جنّت بھی۔ منیرنیازی کی شاعری ان دونوں سے مل کر اک اکائی کی صورت اختیار کرتی ہے۔
منیر نیازی کی شاعری اک طویل جلاوطنی کی پہلی جھلک دیکھنے سے مماثلت رکھتی ہے۔ اس شاعری میں حیران کر دینے والے، بھولے ہوئے، گمشدہ تجربوں کو زندہ کرنے کی ایسی غیر معمولی صلاحیت ہے جو دوسرے شاعروں میں نظر نہیں آتی۔ منیر کی شاعری کی وابستگی نظریات یا علوم کے ساتھ نہیں بلکہ شاعری کی اصل اور اس کے جوہر کے ساتھ ہے۔ خود کو بطور شاعر شناخت کر کے اپنے وجود کا بطور شاعر ادراک اور اس پر ایمان منیر نیازی کو اپنے عہد کے آدھے شاعروں میں پورے شاعر کا درجہ دیتا ہے۔
منیر نیازی 19 اپریل 1928ء کو ہوشیار پور کے قصبہ خان پور کے اک پشتون گھرانے میں پپدا ہوئے۔ ان کے والد محمد فتح خان محکمۂ انہار میں ملازم تھے لیکن خاندان کے باقی لوگ فوج یا ٹرانسپورٹ کے شعبہ سے وابستہ تھے۔ منیر ایک سال کے تھے جب ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ ان کی پرورش ماں اور چچاؤں نے کی۔ ان کی والدہ کو کتابیں پڑھنے کا شوق تھا اور ان ہی سے ادبی مذاق منیر نیازی میں منتقل ہوا۔ لڑکپن سے ہی منیر کو جب بھی کوئی چیز حیران کرتی تھی وہ اسے شعری واردات میں تبدیل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ شروع میں انھوں نے نظم اور غزل کے علاوہ کچھ افسانے بھی لکھے تھے جن کو بعد میں انھوں نے مسترد کر دیا۔ منیر نے ابتدائی تعلیم منٹگمری(موجودہ ساہیوال) میں حاصل کی اور یہیں سے میٹرک کا امتحان پاس کر کے نیوی میں بطور سیلر ملازم ہو گئے۔ لیکن یہاں کی ڈسپلن ان کے مزاج کے خلاف تھی۔ ملازمت کے دنوں میں بمبئی کے ساحلوں پر اکیلے بیٹھ کر ’’ادبی دنیا‘‘ میں شائع ہونے والے سعادت حسن منٹو کے افسانے اور میرا جی کی نظمیں پڑھتے تھے۔ ان ہی دنوں میں ان کا ادبی شوق پروان چڑھا اور انھوں نے نیوی کی ملازمت سے استعفیٰ دے دیا اور اپنی تعلیم مکمل کی اور ساتھ ہی لکھنے لکھانے کا باقاعدہ سلسلہ شروع کیا۔ انھوں نے لاہور کے دیال سنگھ کالج سے بی۔ اے کیا اور اس زمانہ میں کچھ انگریزی نظمیں بھی لکھیں۔ تعلیم مکمل ہونے کے بعد ہی ملک کا بٹوارہ ہوگیا اور ان کا سارا خاندان پاکستان چلا گیا۔ یہاں انھوں نے ساہیوال میں اک اشاعتی ادارہ قائم کیا جس میں خسارہ ہوا۔ چھوٹے موٹے ناکام کاروبار کرنے کے بعد منیر نیازی لاہور چلے گئے۔ جہاں مجید امجد کے اشتراک سے انھوں نے ایک پرچہ ’’سات رنگ‘‘ جاری کیا۔ انھوں نے مختلف اخباروں اور ریڈیو کے لئے بھی کام کیا۔ 1960ء کی دہائی میں انھوں نے فلموں کے لئے گانے لکھے جو بہت مشہور ہوئے۔ ان میں 1962 کی فلم ’’شہید‘‘ کے لئے نسیم بانو کا گایا ہوا گانا ’’اس بےوفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو‘‘، اور اسی سال فلم ’’سسرال‘‘ کے لئے مہدی حسن کی آواز میں ’’جس نے مرے دل کو درد دیا، اس شکل کو میں نے بھلایا نہیں‘‘ اور اسی فلم میں نورجہاں کی آواز میں ’’جا اپنی حسرتوں پر آنسو بہا کے سو جا‘‘ بہت مقبول ہوئے۔ 1976 کی فلم ’’خریدار‘‘ کے لئے ناہید اختر کی آواز میں ان کا گیت ’’زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا‘‘ بھی بہت مقبول ہوا۔ لیکن بعد میں وہ پوری طرح اپنی ادبی شاعری میں غرق ہو گئے۔
منیر اپنی جاذب شکل و صورت کے طفیل خواتین میں بہت پسند کئے جاتے تھے۔ انھوں نے خود اعتراف کیا کہ ان کو کم و بیش چالیس بار عارضۂ عشق لاحق ہوا۔ ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا تھا ’’یہ لیلیٰ مجنوں کا زمانہ تو ہے نہیں کہ چلمن کی اوٹ سے محبوب کا رخ روشن دیکھ کر ساری عمر گنوا دی جائے۔ اب تو قدم قدم پر ہماری ہمدم و ہمراز عورت ہے پھر بھلا ایک کے پلّو سے بندھ کر کس طرح زندگی گزاری جا سکتی ہے۔‘‘ بہرحال 1958ء میں انھوں نے بیگم ناہید سے شادی کر لی تھی۔ منیر نیازی کے یہاں بے پناہ انانیت تھی وہ کسی شاعر کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ قدیم شعراء میں بس میرؔ، غالبؔ اور سراج اورنگ آبادی ان کو پسند تھے۔ اپنےعہد کے شاعروں کو زیادہ سے زیادہ وہ ٹھیک ٹھاک یا بعض کو اچھا کہہ دیتے تھے بڑا شاعر ان کی نظر میں کوئی نہیں تھا۔ کشور ناہید کو وہ اچھی شاعرہ اور پروین شاکر کو دوسرے درجہ کی شاعرہ کہتے تھے۔
منیر نیازی ان شاعروں میں ہیں جن پر دو مختلف زبانوں، اردو اور پنجابی کے ادب نواز اپنا بڑا شاعر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اسی طرح منیرنیازی نے شاعری کی اصناف، غزل اور نظم، میں بھی اپنی شاعری کے معیار کو یکساں طور پر بلند رکھا ہے۔ انھوں نے گیت اور کچھ نثری نظمیں بھی لکھیں۔ منیرنیازی کثرت سے شراب نوشی کے عادی تھے اور شراب کو اپنے سوا سب کے لئے برا کہتے تھے۔ آخری عمر میں ان کو سانس کی بیماری ہو گئی تھی اور اسی بیماری میں 26 دسمبر 2006ء کو ان کا انتقال ہو گیا۔ حکومت پاکستان نے انھیں پہلے ’’ستارۂ امتیاز‘‘ سے اور پھر ’’پرائڈ آف پرفارمنس‘‘ (کمال فن) کے تمغوں سے نوازا۔
منیر نیازی ایسے شعراء میں سے ہیں جنھوں نے اپنی پہچان کو اس فضا سے مستحکم کیا جو ان کی شاعری سے خود بخود مرتب ہوتی چلی گئی۔ اس فضا میں اسرار بھی ہے اور ملگجی روشنی بھی جو اسرار کو علامت اور استعارے کے ذریعہ کھولتی ہے اور اک انوکھی کیفیت قاری کو منتقل کر دتیی ہے۔انھوں نے سیدھے، سچّے جذبات، حسّی تجربات اور ماضی کے خوشگوار سپنوں اور یادوں کی شاعری کی ہے۔ ان میں بعض جذبے اور حسّی تجربے اردو شاعری کو خاص منیر نیازی کی دین ہیں۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets