حسن نعیم ان ترقی پسند شاعروں میں سے ہیں جو تحریک کے مثبت انقلابی خیالات کے نہ صرف حامی رہے بلکہ عملی سطح پر بھی ان نظریات کے تحت ایک نئے معاشرے کے قیام کی جد وجہد کرتے رہے۔ اس جد وجہد میں انہوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بھی شامل کیا لیکن فن کی پوری حرمت کو بچائے رکھ کر۔ ان کی شاعری تحریک کے نظریاتی پرچار اور انقلابی نعروں میں گم نہیں ہوئی بلکہ ایک نئی اور تازہ دم شعری روش کے آغاز کا سبب بنی۔ یہ شاعری کلاسیکی شعور، نئے زمانے کے مسائل ومصائب اور ان کے اظہار کے نئے طریقوں سے واقفیت کا آمیزہ ہے۔
حسن نعیم کی پیدائش عظیم آباد پٹنہ میں 6 جنوری 1927 کو ایک نہایت ذی علم اور مذہبی خانوادے میں ہوئی۔ ان کے دادا سید غلام حیسن قاسم راجگیر کی درگاہ پیر امام الدین کے سجادہ نشین تھے۔ والد نے جدید تعلیم حاصل کی اور بیرسٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ حسن نعیم کی ابتدائی تعلیم شیخ پورہ میں ہوئی۔ 1943 میں محمڈن اینگلو عربک اسکول پٹنہ سے ہائی اسکول کیا۔ اس کے بعد بی این کالج پٹنہ سے انٹر کیا۔ 1946 میں علیگڑھ میں بی ایس سی میں داخلہ لیا۔ علیگڑہ کے زمانۂ طالب علمی میں ہی انجمن ترقی پسند مصنفین سے وابستہ ہوئے اور ایک فعال کارکن کے طور پر مشہور ہوئے۔ علیگڑھ سے پٹنہ واپسی پر انجمن کی مقامی شاخ کے سکریٹری منتخب ہوئے۔
ابتدا میں حسن نعیم نے پٹنہ اور کلکتہ کے مقامی اسکولوں میں عارضی ملازمتیں کیں۔ بعد میں وہ کئی اہم سرکاری عہدوں پر فائز رہے۔ 1968 میں سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہوکر غالب انسٹٰی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر کی خدمات انجام دیں۔
حسن نعیم کے دو شعری مجموعے شائع ہوئے۔’ اشعار‘ اور دبستان‘22 فروری 1991 کو انتقال ہوا۔