aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
مرزا سلامت علی دیبر اُردو مرثیہ کی تاریخ کا ایک اہم اور بڑا نام ہے۔ صنف مرثیہ کو بام عروج پر پہنچانے میں میرانیس کے ساتھ ساتھ ان کی کوشش بھی ہر لحاظ سے قابل داد ہیں ۔ دبیر بڑے پرگو مشاق اور قادر الکلام شاعر تھے۔ جذبات نگاری اور شوکت الفاظ کو دبیر کا امتیازی وصف قرار دیا جاتا ہے۔ سراپا نگاری اور رزم نگاری کے اعلا نمونے دبیر کے یہاں ملتے ہیں۔ دبیر کے مرثیوں میں ضائع و بدائع، لفظی و معنوی خوبیوں کا استعمال فیاضی سے ملتا ہے۔ بعض مرثیوں میں تو دبیر نے تمام صنعتیں ایک ساتھ نظم کر دی ہیں۔ دبیر کے یہاں مرثیوں میں علمیت، فنی پختگی اور زبان و بیان کا ایک سمندر ٹھاٹھیں مارتا نظر آتا ہے۔ ان کی تعلیم اور عالمانہ ژرف نگاہی کی وجہ سے مرثیوں میں وزن و وقار آگیا ہے لیکن کبھی کبھی یہی محاسن کھٹکنے بھی لگتے ہیں۔ دبیر کے یہاں خیال آفرینی، مضمون سے مضمون نکالنا اور مذہب کلامی اپنے عروج پر نظر آتی ہے۔ مرزا دبیر نے سینکڑوں مرثئے کہے ہیں۔ "دفتر ماتم" میں ان کے مرثیوں کو یکجا کیا گیا ہے۔ "دفتر ماتم" کئی جلدوں پر مشتمل ہے۔ زیر نظر دوسری جلد ہے۔
مرزا سلامت علی دبیر (1875ء۔1803ء) اردو کےان نامور شعراء میں سے تھےجنہوں نے مرثیہ نگاری کو ایک نئی جدت اور خوبصورتی سے نوازا۔ آپ کو میر انیس کے ساتھ مرثیہ نگاری کا موجد اور بانی کہا جاتا ہے۔
مرزا دبیر 1803ء کو دلی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے بچپن میں ہی محرم کی مجالس میں مرثیے پڑہنے شروع کر دیئے تھے۔ انہوں نے میر مظفر ضمیر کی شاگردی میں شاعری کا آغاز کیا۔ دبیر اپنے زمانے کے بہت بڑے دانشور بھی تھے۔انہوں نے دہلی سے لکھنّو کی طرف ہجرت کی جہاں انہیں مرثیہ نگاری پر ذیادہ بہتر کام کرنے کا ماحول دستیاب ہوا۔
مولانا محمد حسن آذاد اپنی کتاب ’’آب حیات‘‘ میں ’’تذکرۂ سراپا سکون‘‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ مرزا دبیر کے والد صاحب کے نام کے حوالے سے دو نام ملتے ہیں۔ ایک ’’غلام حسین‘‘ دوسرا ’’مرزا ٓغاجان کاغذ فروش‘‘۔ مرزا دبیر کا 1875ء میں انتقال ہوا اور انہیں وہیں پر دفن کیا گیا۔
ادبی خدمات:
انہوں نے اپنی زندگی میں تین ہزار (3000) سے زائد مرثیے لکھےجس میں نوحے اور سلام شامل نہیں ہیں۔
انہوں نے بغیر نقطوں کے ایک کلام لکھا جس کا پہلا شعر تھا:
’’ہم طالع ہما مراد ہم رسا ہوا‘‘
اس بے نقطہ نظم میں مرزا دبیر نے اپنے تخلص دبیر کی جگہ اپنا تخلص ’’عطارد‘‘ استعمال کیا اور اس پوری نظم میں شروع سے آخر تک ایک نقطے کا استعمال بھی نہیں کیا۔ ایک انگریز مصنف ، پرو فیسر اور قدیم اردو شاعری کے کے ماہر پروفیسر فرانسس ڈبلیو پرچیٹ نے ایک مقام پر لکھا ہے کہ’’ اس طرح کا مکمل مرثیہ نگار، شاعر اور انسان دوبارہ پیدا نہیں ہو سکتا‘‘
آپ کے چند مشہور مرثیے:
1۔ کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے۔
2۔ دست ِخدا کا قوتِ بازو حسینؑ ہیں۔
3۔ جب چلے یثرب سے ثبت مصطفٰےؐؐ سوئے عراق۔
4۔ بلقیس پاسبان ہے، یہ کس کی جناب ہے۔
5۔ پیدا شعاع مہر کی مقراض جب ہوئی۔
اگرچہ مرزا دبیر کی وجہ شہرت مرثیہ نگاری تھی لیکن انہوں نے شاعری کی دوسری اصناف پر بھی بہت کام کیا جس میں سلام، رباعی، قطعات اور غزلیات بھی شامل ہیں۔ آپ کی غزلوں کا اسلوب مرزا غالب سے ملتا جلتا ہے۔
مرزا دبیر اور میر انیس کا تقابل
اردو ادب کی تاریخ میں مرزا دبیر اور میر انیس کی مرثیہ نگاری کا بہت زیادہ تقابل کیا جاتا ہے۔ اگرچہ دونوں کی ہی وجہ شہرت مرثیہ نگاری تھی تاہم دونوں کا انداز اور اسلوب ایک دوسرے سے بہت مختلف تھا۔ بعد میں آنے ولےاردو ادب کے بہت سے ماہرین نے اس پر بہت ذیادہ کام کیا۔ اس عظیم ورثہ کو محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے۔
دنیا کے مختلف مصنفین اور محققین نے مرزا دبیر کے کام پر جو کتابیں لکھیں ان میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ موازنہِ انیس و دبیر (مولانا شبلی نعمانی)
2۔ انیس و دبیر (ڈاکٹر گوپی چند نارنگ)
3۔ مجتہد نظم مرزا دبیر (ڈاکٹر سیّد تقی عابدی)
4۔ مرزا سلامت علی دبیر (ایلڈر ۔اے۔مینیو)(انگریزی میں)
اردو ادب کے شعراء کو سلام
انیس اور دبیر اکیڈمی لندن نے ان دونوں عظیم شعراء کی سالگرہ پر ’’اردو ادب میں انیس اور دبیر کا مقام‘‘ کے عنوان سے ایک عالمی سیمینار کا انعقاد کیاجس میں پاکستان، بھارت، امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیااور برطانیہ کے علاوہ دنیا کے بہت سے ممالک کے ادیبو اور دانشوروں نے شرکت کی اور مرزا دبیر و انیس کی شخصیات اور کام پر روشنی ڈالی۔
اسی طرح کا ایک سیمینار 27 اکتوبر 2009ء کو کراچی میں بھی منعقد کیا گیا جس میں کینیڈا کے ڈاکٹر سیّد تقی عابدی نے انکشاف کیا کہ اردو شاعری میں میر انیس اور مرزا دبیر نے دنیا کے کسی بھی اردو شاعر سے ذیادہ الفاظ استعمال کیےہیں۔ انہوں نے بتایا نذیر اکبر آبادی نے 8500 الفاظ استعمال کیے مرزا دبیر نے 120,000 جبکہ میر انیس نے 86000 الفاظ استعمال کیے۔
نذرانہ عقیدت
3 جنوری 2014ء کو مفس نوحہ اکیڈمی ممبے انڈیانے مرزا دبیر کو نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہوئےمرزا دبیر کے مرثیوں پر مشتمل 35 وڈیوز کی ایک سیریز جاری کی۔جس کا عنوان تھا ’’مرزا سلامت علی دبیر کے سوز‘‘ جو کہ 8 مرثیوں پر مشتمل ہے (مدینہ تا مدینہ مکمل، 28 رجب سے 8 ربیع الاول) بھارت کے مشہور نوحہ خواں راحیل رضوی نے یہ مرثیے پڑہنے کا شرف حاصل کیا۔
وفات
مولانا محمد حسین آذاد کی کتاب ’’آبِ حیات‘‘ کے مطابق مرزا دبیر کا انتقال 29 محرم 1292 ہجری بطابق (1875-76ء) میں ہوا۔ انتقال کے وقت آپ کی عمر 72 سال تھی۔
ورثہ دبیر
مرزا دبیر اور میر انیس نے اردو ادب پر، خاص طور پر مرثیہ نگاری کی تاریخ پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ انہوں نے مرثیہ نگاری میں بہترین اسلوب اور اصنا ف متعارف کرائیںاور الفاظ کا بہترین چناؤ اور استعمال کیا۔
مرزا دبیر اور میر انیس نے مرثیہ نگاری کو جو پہچان دی وہ صرف انہیں سے منصوب رہے گی۔ ان کی مرثیہ نگاری نے برصغیر پاک و ہند کے معاشرے پر بہت ذیادہ مثبت اثرات مرتب کیے ہیں۔جب بھی مرثیہ نگاری اور اردو ادب میں خدمات کا ذکر کیا جائے گا مرزا دبیر کا نے ہمیشہ سر فہرست لکھا جائے گا۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets