aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
پیش نظرامید فاضلی کا شعری مجموعہ "دریا آخر دریا ہے"اردو غزل میں ایک اہم اضافے کی صورت موجودہے۔ جو شاعر کے منفرداسلوب اور موضوعات کےتنوع کے ساتھ منفرد اورنمایاں ہے۔ ان کی غزلیں تازگی ، شگفتگی اور نازک خیالی کی عمد ہ مثال ہیں۔بقول سلیم احمد" امید کی غزلوں میں اپی ہوئی تلوار کی طرح کاٹ دار اور دلوں میں اترجانے والے اشعار ملتے ہیں اور ان کی آواز ہم عصر شاعری کی آوازوں میں صاف اور الگ پہچانی جاسکتی ہے۔ان کی ابتدایہ چند غزلوں کے سوا ان کی پوری شاعری میں کسی کلاسیکی آواز یا لہجہ کی اثر پذیری کا نشان نہیں ملتا۔" امید فاضلی نے نہ صرف اپنے ذاتی غم کو شعری پیکر میں ڈھالا بلکہ معاشرے کی دکھتی رگ پر بھی چوٹ کی ہے۔شخصیتوں کی اندرونی ٹوٹ پھوٹ،تنہائی اور احساس شکست کو بھی شعری رنگ میں پیش کیا ہے۔
نام ارشاد احمد فاضلی اور امید تخلص تھا۔۱۷؍نومبر۱۹۲۳ء کو ڈبائی ضلع بلند شہر میں پیدا ہوئے۔ گریجویشن علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے پاس کیا۔۱۹۴۴ء میں میرٹھ میں کنٹرولر ملٹری اکاؤنٹس کے دفتر میں ملازم ہوگئے۔پاکستان آنے کے بعد بھی اسی محکمے سے وابستہ رہے۔اوائل عمر میں شکیل بدایونی سے مشورہ سخن کیا۔امید فاضلی غزل گو کے علاوہ مرثیہ گو بھی تھے۔۲۹؍ستمبر۲۰۰۵ء کو اس جہان فانی سے رخصت ہوگئے۔ ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں: ’دریا آخر دریا ہے‘(غزلوں کا مجموعہ) ،’سرنینوا‘ (مراثی کا مجموعہ)، ’میرے آقاؐ‘(حمدونعت)، ’تب وتاب جاودانہ‘(مراثی)، ’پاکستان زندہ باد‘(قومی وملی شاعری)، ’مناقب‘۔ ’’دریا آخر دریا ہے‘‘ پر آدم جی ایوارڈ ملا۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:152
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets