aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
پنڈت ودیا رتن عاصی صاحب کی پیدائش 11 جولائی 1938 کو جموں کے محلہ چوگان سلاتھیاں میں ہوئی۔ بچپن سے ہی محرومی کی زندگی گزارنے والے عاصی صاحب نے زندگی کی تلخیوں کو اپنے اشعار میں خوبصورتی سے پرویا۔ ساتھ ہی ان کی چھوٹی بحروں میں کہی گئی غزلوں نے انہیں خاصی مقبولیت دلائی۔ عاصی صاحب کا پہلا شعری مجموعہ 1995 کے آس پاس اردو میں "دشتِ طلب" کے نام سے شائع ہوا۔ ان کا دوسرا شعری مجموعہ دیوناگری رسم الخط میں "زندگی کے مارے لوگ" کے نام سے 2017 میں شائع ہوا۔ 10 فروری 2019 کو بسنت پنچمی کے دن عاصی صاحب اس فانی دنیا کو الوداع کہہ گئے۔
عاصی کا بیشتر کلام ان کے تجربات، جذبات و احساسات کا ترجمان ہے۔ شاید اس میں روایت کی نسبت درایت زیادہ ہے۔ عاصی اس روایت کے امین ہیں، جس کا سلسلہ بہت دور پہونچتا ہے۔ عاصی عرش صہبائی کے شاگرد ہیں، عرش صاحب جوش ملسیانی کے، جوش بقول خود داغ کے، داغ ذوق کے، ذوق شاہ نصیر کے اور شاہ نصیر (ایک روایت کے مطابق) مصحفی کے۔ ان کی غزل میں روایت کا خاصہ عنصر موجود لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ عاصی کی شاعری محض روایتی ہے۔ جو کچھ انہوں نے لکھا ہے، محسوس کر کے لکھا ہے، بلکہ ان کے روایتی اشعار میں بھی ان کے محسوسات کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets