aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
رؤف رضا جن کا خاندانی نام عبدالرؤف صدیقی ہے ۱۸؍اپریل۱۹۵۴ء کو پیداہوئے۔ان کے والد عبدالرشید صدیقی کو شعر و ادب سے کوئی علاقہ نہیں تھالیکن ان کی والدہ کوشعر و شاعری اورخاص طور پر نعتیہ شاعری سے کافی دلچسپی تھی جس کی وجہ سے رؤف کے ہی شعرسے آشنا ہوچکے تھے۔یہ آشنائی شعر گوئی کی شکل میں ڈھل گئی۔ ابتداء میں اسکول کے ہم سبق لڑکوں کو دکھانے کے لئے مصرعے کرتے اور شعر کہتے لیکن ۱۹۷۵ء میں سنجیدگی کے ساتھ شاعری شروع کی اور ڈاکٹر افتحار امام احمد علوی مرحوم کا تلمذ اختیار کیا۔ افتخار ا حمد علوی مرحوم ایک اسکول میں مدرس تھے اور فن عروض پر دسترس رکھتے تھے۔رؤف رضا کاروباری انسان بھی ہیں اور ہرذی شعور انسان کی طرح کاروبارکو دوسرے تمام معاملات پر ترجیح دیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ رؤف رضا نے شاعری کوشہرت کا ذریعہ نہیں بنایایادوسرے لفظوں میں اپنے لہجے کی تازگی اور متاثر کن شاعری کا استحصال نہیں کیا بلکہ بڑی خاموشی کے ساتھ شعروادب کی خدمت میں مصروف ہیں (تھے)۔دستکیں میری رؤف رضا کا شعری مجموعہ ہے........۔
رؤف رضا نے وہ شہرت اور ناموری تو حاصل نہیں کی جس کے وہ بجاطور پر حق دار تھے ، مگر جیسا کے میں اوپر لکھ چکا ہوں کہ وہ اپنی ذات، اپنی حدود اور اپنے دائرہ میں رہ کر زندگی گذارنے کے عادی تھے، اس لئے وہ سب کچھ نہ ہوسکا جو ہونا چاہئے تھا۔ ان کا انتقال ۲ دسمبر ۲۰۱۶ کو دہلی میں ہوا۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets