aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
قرۃ العین حیدر ہندوستان کی مائناز ادیبہ ہیں اور عینی آپا کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ فکشن کے علاوہ مختلف موضوعات پر ان کی بے شمار کتابیں شائع ہو چکی ہیں ۔ان کی یہ کتاب متعدد ادبی مضامین اور اہم شخصیات کی ان سے لئے گئے انٹریو اور مکالمے پر مبنی ہے۔ یہ کتاب کل ۲۱ مضامین کا مجموعہ ہے۔ مقدمہ اور ماخذ اس کے علاوہ ہیں۔ اگر بنظر غائر مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس مجموعے میں وہ تحریرں شامل کی گئی ہیں جو ادب و فن سے متعلق ہیں ، خاص طور پر افسانوی ادب اور تنقید سے متعلق خاکے اور وہ مضامین جو ادبی ثقافتی پس منظر کے حوالے سے لکھے گئے ہیں،وہ مجموعے کی صورت میں شائع کیے جا رہے ہیں۔ یہ کتاب یلدرم اور ان کے زمانے میں اردو کے جدید افسانے کے آغاز کا پس منظر بیان کرتی ہے۔ مصنفہ کے خاندانی پس منظر اور ذہنی فضا کاحوالہ بھی موجود ہے۔ پہلا مضمون " داستان عہد گل" سے کتاب موسوم ہے اور ٹائیٹل پر بنا آرٹ اسی کہانی کے تصورات کی غمازی کر رہا ہے۔
قرۃ العين حيدر 20 جنوری، 1926ء میں اتر پردیش کے شہر علی گڑھ میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد سجاد حیدر یلدرم اردو کے پہلے افسانہ نگار شمار کیے جاتے ہیں۔ تقسیم ہند کے بعد قرۃ العین حیدر کا خاندان پاکستان چلا گیا۔ 1959ء میں ان کا ناول آگ کا دریا منظر عام پر آیا جس پر پاکستان میں بہت ہنگامہ ہوا۔ اس کے فوراً بعد انہوں نے بھارت واپس جانے کا فیصلہ کیا جہاں وہ بطور صحافی کام کرتی رہیں اور افسانے اور ناول بھی لکھتی رہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے ادبی تراجم بھی کیے۔ ان کی کتابوں کی تعداد 30 سے زیادہ ہے۔ انہوں نے 1964ء تا 1968ء ماہنامہ امپرنٹ کی ادارت کی اور السٹریٹیڈ ویکلی آف انڈیا میں اداریہ لکھتی رہیں۔ ان کی کتابیں انگریزی اور دیگر زبانوں میں ترجمہ ہوئی ہیں۔ ان کے سبھی ناولوں اور کہانیوں میں تقسیم ہند کا درد صاف نظر آتا ہے۔ ان کے دو ناولوں آگ کا دریا اور آخر شب کے ہم سفر کو اردو ادب کا شاہکار مانا جاتا ہے۔
آخرِ شب کے ہم سفر کے لیے 1989ء میں انہیں بھارت کے سب سے باوقار ادبی اعزاز گیان پیٹھ انعام سے بھی نوازا گیا جبکہ بھارتی حکومت نے انہیں 1985ء میں پدم شری اور 2005ء میں پدم بھوشن جیسے اعزازات بھی دیے۔ 11 سال کی عمر سے ہی کہانیاں لکھنے والی قرۃ العین حیدر کو اردو ادب کی ورجینیا وولف کہا جاتا ہے۔ انہوں نے پہلی بار اردو ادب میں سٹریم آف کونشیئسنس تکنیک کا استعمال کیا تھا۔ اس تکنیک کے تحت کہانی ایک ہی وقت میں مختلف سمت میں چلتی ہے۔ ان کی وفات 21 اگست 2007ء کو نوئیڈا میں ہوئی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قبرستان میں مدفون ہوئیں۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets