aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
زیر نظر کتاب "داستان عجم" یعنی شاہنامہ فردوسی پر تبصرہ ہے۔ یہ تبصرہ نصیر حسین خیال عظیم آبادی نے کیا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ 1000ء میں فارسی کے ممتاز شاعر فردوسی نے ایک شاہنامہ لکھا تھا جس میں "عظیم فارس" کے تہذیبی و ثقافتی تاریخ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ مجموعہ تقریباً 60000 سے زائد اشعار پر مشتمل ہے۔ اس ادبی شاہکار، شاہنامہ میں ایرانی داستانیں اور ایرانی سلطنت کی تاریخ بیان کی گئی ہے۔ یہ واقعات شاعرانہ انداز میں بیان کیے گئے ہیں اور اس میں عظیم فارس سے لے کر اسلامی سلطنت کے قیام تک کے واقعات، تہذیب، تمدن اور ثقافت کا احاطہ کیا گیا ہے۔ زیر نظر کتاب میں اسی شاہنامہ پر تبصرہ کیا گیا ہے۔ کتاب کے شروع میں رشید احمد صدیقی کا تعارف اور عباس شوستری کا لکھا ہوا مقدمہ بھی شامل ہے۔
شاعر۔ ادیب۔ نواب نوروز حسین کے بیٹے۔ عظیم آباد پٹنہ میں پیدا ہوئے۔ چچا جعفر حسین خان اور ماموں حضرت شاد عظیم آبادی کے زیر سایہ پرورش پائی۔ عربی فارسی کے علاوہانگریزی میں بھی کافی دستگاہ حاصل کی۔ سفر یورپ کے دوران میں فرانسیسی زبان بھی سیکھ لی۔ کلام پر حضرت شاد سے اصلاح لیتے تھے۔ تھوڑے عرصے بعد شاعری ترک کرکے نثر نگاری کی طرف متوجہ ہوئے۔ 1897ء میں اٹھارہ سال کی عمر میں رسالہ ادیب جاری کیا۔ 1900ء میں کلکتے میں شادی ہو جانے سے وہاں مستقل طور سے منتقل ہو گئے۔ علمی اور سیاسی تحریکوں سے بڑی دلچسپی تھی۔ علی گڑھ کالج کے ٹرسٹی اور ایشیاٹک سوسائٹی کے رکن تھے۔ ان کا سب سے بڑا ادبی کارنامہ وہ خطبۂ صدارت ہے جس کا کچھ حصہ انہوں نے دسمبر 1916ء میں آل انڈیا اردو کانفرنسلکھنؤ میں پڑھا تھا۔ خطبے کا ایک حصہ داستان اردو اور آخری باب مغل اور اردو کے نام سے کتابی شکل میں چھپ گیا ہے۔ دوسری کتاب داستان عجم ہے جس میں مصطلحات شاہ نامہ کی تشریح کی گئی ہے۔ چھتاری ’’علی گڑھ‘‘ میں حرکت قلب بند ہو جانے سے انتقال کیا۔ پٹنہ میں دفن ہوئے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets