aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
ظہیر دہلوی نے اپنی زندگی کی داستان کو "داستانِ غدر"کے عنوان سے لکھا۔ اس میں 1857 کے ہولناک واقعات کا ذکر ہے۔ظہیر دہلوی کا نام سید ظہیر الدین حسین تھا اورظہیر تخلص کرتے تھے۔۱۸۲۵ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ بارہ سال کی عمر میں آپ فارسی کی درسی کتابیں اور عربی کی چندابتدائی کتابیں مکمل نہیں کر سکے کہ دربار شاہی میں ملازم ہوگئے۔ ان کے والد خوش نویسی میں بہادر شاہ ظفر کے استاد تھے۔ظہیر ترقی کرکے بہادر شاہ ظفر کے داروغۂ ماہی ومراتب مقرر ہوئے اور راقم الدولہ خطاب پایا۔ شعروسخن کا شوق کم سنی سے تھا۔ذوق کے شاگرد تھے۔۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد پہلے بریلی پھر رام پور چلے گئے۔ کچھ عرصہ بعد اخبار ’’جلوۂ طور‘‘ کے ایڈیٹر ہوگئے جو بلند شہر سے نکلتا تھا۔ مہاراجا الور نے ان کے مضامین کو بہت پسند کیا اور ان کو الور بلا لیا۔ وہاں کی سازشوں سے دل برداشتہ ہو کر جے پور میں تقریباً انیس برس رہے۔ پندرہ برس ٹونک میں رہے۔ آخری عمر میں حیدر آبادچلے گئے او روہیں مارچ1911ء میں انتقال ہوا۔
Zahiruddin was known as Zahir Dehlvi. His father, Syed Jalaluddin Haider, was the mentor of Shah Zafar in calligraphy. Zahir had been in love with poetry since a very early age. He became a disciple of Zoq Delhvi at the age of fourteen. After the mutiny of 1858, he was hunting for a job and passed four years in Rampur and another four in Alwar. He lived in Jaipur for nineteen years and passed another sixteen years of his age in Tonk. He reached Hyderabad during the last years of his life, where he died before getting any salary. He has four deewans to his credit. Though he was a disciple of Zoq but the shades of Momin dominate his poetry.
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets