aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
ضیا فاروقی اردو کے ان شعرا میں ہیں جن کی پشت پر تقریباً نصف صدی کی تجربات کے نقوش کو آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کی پیدائش 12ستمبر1947 کو یوپی کی مردم خیز تحصیل سندیلہ ضلع ہردوئی کے اس خاندان میں ہوئی جو اپنی علمی وجاہت کے سبب طبقۂ اشرفیہ میں شمار ہوتا ہے۔ان کے والد چودھری عالم رضا علاقے کے بااثر ذمہ داروں میں تھیچنانچہ ان کی ابتدائی تعلیم و تربیت اسی انداز سے ہوئی جیسے اس طبقے کے نونہالوں کی عام طور سے ہوتی ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے لئے کانپور آئے۔ گریجویشن کانپور سے کیا اور وہیں ٹرانسپورٹ کارپوریشن کانپور میں ملازم ہوگئے۔ 2005 میں ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔ بھوپال سے چونکہ بزرگوں کے زمانے سے تعلق رہا اس کے علاوہ خود ان کے اپنے بھی یہاں کے اہل قلم سے شروع سے ہی ذاتی مراسم رہے اس لئے انہوں نے بھوپال کو اپنا جائے قیام اور جائے قرار بنا لیا۔جہاں تک ان کے ادبی سروکار کا معاملہ ہے تو یہ اردو زبان و ادب کے ان شہ سواروں میں ہیں جنہوں نے چاروں دھام کی یاترا کی ہے۔ یہاں ہمارا مطلب ان کی شاعری اور افسانوں سے بھی ہے اور تحقیقی اور تنقیدی شعور سے بھی۔ چونکہ ان کے مزاج میں تحقیقی مادہ زیادہ ہے تو چاہے وہ خاندانی شجرے ہوں یا تاریخ کے اوراق ہوں ان کی دلچسپی کے نمونے اکثر ان کی تحریروں میں ملتے رہتے ہیں۔ تنقیدی سطح پر بھی مختلف کتابوں کے جائزے اور ادبی موضوعات پر وہ اپنے خیالات کا اظہار اردو کے مختلف رسائل و جرائد کے حوالے سے کرتے رہتے ہیں۔ سہا مجددی پر ان کا مونوگراف دہلی اردو اکادمی کے حوالے سے منظر عام پر آیا ہے۔ اس مونوگراف میں ضیا فاروقی نے جہاں سہا مجددی کے احوال و آثار کی تلاش بہت عرق ریزی سے کی ہے وہیں سہا کی شاعری کا بھی بالاستعجاب مطالعہ کرکے ان رنگوں کی نشاندہی کی ہے جو سہا کے یہاں غالب یا دوسرے شعراء کے کلام کے حوالے سے نظر آتے ہیں۔
ضیا فاروقی کا ایک اہم کام کانپور نامہ بھی ہیکہ کانپورنامہ کا تذکرہ کیے بغیر ان کے ادبی سروکار پر گفتگو نا ممکن ہے۔ مثنوی کانپور نامہ، کانپور کی ڈھائی سو سال کی ایسی منظوم ادبی تاریخ ہے جس سے کانپور کی لسانی قدامت کا بھی پتہ چلتا ہے۔ اس کے علاوہ شعری تصانیف میں رقص غبار(منظوم یادداشتیں) (یوپی اردو اکیڈمی سے انعام یافتہ)، پس گرد سفر، دشت شب (یوپی اردو اکادمی سے انعام یافتہ) شامل ہیں جبکہ نثری تصانیف میں ’لفظ رنگ‘، ’تذکرۂ مورخین، اور داستان رنگ (افسانوی مجموعہ) شامل ہیں۔
جہاں تک ضیا فاروقی کی غزلوں کا تعلق ہے انھوں نے اپنے عہد کے شعری رویوں سے متاثر ہوکر جو غزلیں کہی ہیں ان میں کلاسیکی روایات کی پاسداری بھی ہے اور جدید حسیت کی روشنی بھی۔ ان کے یہاں انتشار و احتجاج کے وہ سارے رنگ نمایاں ہیں جس سے بیسویں صدی کا نصف آخر عبارت ہے۔ ماضی کی یادیں حال کے دکھ کو ختم تو نہیں کرتی ہیں لیکن حوصلہ ضرور بخشتی ہیں۔ ضیا فاورقی کے یہاں حوصلوں کا یہ احساس جگہ جگہ نظر آتا ہے۔ ضیا فاروقی نے نظمیں بھی اچھی خاصی تعداد میں کہی ہیں اور شخصی مرثیے بھی۔ ان کی نظمیں اپنی روانی اور تسلسل کی بنا پر قاری پر اپنے دیر پا اثرات چھوڑتی ہیں۔ ان کے یہاں حمد و نعت کے حوالے سے بھی عقیدت و احترام میں ڈوبے ہوئے اشعار موجود ہیں جو قاری یا سامع پر دیر پا اثرات چھوڑتے ہیں۔ یوپی اردو اکادمی نے ان کی دو کتابوں پر ایوارڈ دیا ہے۔ مدھیہ پردیش اردو اکادمی نے ’نواب صدیق حسن خاں صوبائی اعزاز‘ سے نوازا ہے۔ اس کے علاوہ کئی ادبی اداروں اور تنظیموں نے ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں اعزازات سے نوازا ہے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets