aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
اکبر شاہ گورکانی اور اس کی تجدد پسندی ایسی ہے جس سے بہت سے لوگوں کو اختلاف ہوا تو کسی نے اسے خدا بننے کی کوشش قرار دیا تو کوئی نبی بننے کی کوشش سے تعبیر کرتا رہا۔ مگر ان وجوہات کو جاننے کی کوشش کسی نے نہ کی گئی جن کی وجہ سے اکبر کو ان اقدام کی ضرورت پڑی۔ اکبر کی طرح اس کی نیتیاں بھی ہمیشہ بحث و مباحثہ اور دلچسپی کے نت نئے پہلو نکالتی رہیں اور لوگ اس سے لطف اندوز بھی ہوتے رہے اور خفا ب ھی ہوتے رہے۔جب اکبر کے دربار میں علماء کا رسوخ بڑھا اور انہوں نے اپنی من مانی شروع کی تو اس نے ان سے چھٹکارا پانے کے لئے کئی طرح کی چالیں چلیں اور شیخ الاسلام اور شیخ عبد النبی جیسے کرپٹ لوگوں کی من مانی سے جب وہ پریشان ہو گیا تو اس نے ان کا باعزت دیش نکالا کرنے کی ایک تجویز پیش کی جس میں فیضی برادران کا بہت بڑا ہاتھ رہا۔ اس نے اعلان کر دیا کہ درباری علماء کو شاہی اخراج سے حج کرایا جائے گا خواہشمند حضرات درخواست دیں جب سب نے فارم بھر دئے تب اس نے ان کو حکم دیا کہ آپ لوگ تاحکم ثانی ہندوستان واپس نہیں آئینگے۔ علماء نے جب یہ خبر سنی تو انہیں اصلی وجہ معلوم ہو سکی کہ یہ حج نہیں بلکہ دیش نکالا ہے۔ انہی علماء میں ملا عبد القادر بھی اپنی دیرینہ منت پوری کرنے کے لئے جانے کا قصد رکھتے تھے مگر انہیں اجازت نہیں مل سکی۔ یہ علماء جلد ہی واپس آگئے تو ان کے خلاف انکواری بٹھا دی گئی جس میں ان لوگوں کے خاندانی قبرستانوں میں سونے کی اینٹیں دفن ملیں اور شیخ الاسلام کو اس کی سزا ملی اسی طرح سے شیخ عبد النبی پر بھی ہیر پھیر کا الزام لگا۔ جب اکبر ان علماء کی گرفت سے باہر آیا تو اس نے اپنا دربار دیگر مذاہب کے علماء سے بھرا اور روزانہ کی مجالس کا سلسلہ شروع کیا اور جب یہ سلسلہ شروع ہوا تو اس میں مسلمانوں کے یہاں ہی اتنا اختلاف دیکھا کہ ایک امام کے یہاں وہی چیز جائز ہے تو دوسرے کے یہاں ناجائز وغیرہ اور ان علماء میں بھی اختلاف ہونے لگا حتی کہ ان لوگوں نے نشست گاہ پر بھی لڑنا شروع کر دیا جس سے پریشان ہوکر اس نے ایک ایسے عبادت خانہ کی بنیاد رکھی جو تمام مذاہب کے انویائیوں کے لئے مساوات کا درجہ رکھتا تھا۔ اس میں بھگوانوں کی پوجا بھی ہوتی تھی اور خدا کی عبادت بھی۔ زرتشتیوں کی آگ بھی جلتی تھی اور یہود و نصاری کے معبودوں کی پرستش بھی ہوتی تھی۔ وہ یہیں پر نہیں رکا بلکہ اس نے تمام مذاہب کے اچھے اور عقل میں آنے والے احکامات کو ایک جگہ جمع کیا اور ان کو ایک سرکاری مانیتہ دیکر چند احکامات کو اپنی طرف سے ترمیم و اضافہ کر کے لوگوں کو ان احکامات پر عمل کرنے کی دعوت دی مگر اس نے کسی کو اس پر عمل کرنے یا اس کے حلقہ ارادت میں آنے کے لئے کبھی مجبور نہیں کیا بلکہ دربار کا ہر فرد آزاد تھا کہ وہ جس مذہب کو بھی چاہتا قبول کرتا ، اور اس نے کبھی بھی اسے دین الہی نہیں کہا اور نہ ہی معاصر مورخین و تذکرہ نگاروں میں سے کسی نے اسے دین الہی کا نام دیا۔ ان مذہبی خیالات کے کچھ قوانین اس طرح تھے کہ " داڑھی کاٹنے کو جائز کر دیا گیا، سور کا گوشت حلال ہو گیا، ختنہ کرانے کی ممانعت کر دی گئی، اسی طرح سے اپنے ماننے والوں کے لئے کچھ اہم امور کا اقرار لازمی قرار دے دیا گیا" اس میں بیربل، فیضی، ابو الفضل جیسے لوگوں نے اس کا ساتھ دیا۔ دین الہی اور اس کے متعلقات پر سب سے بہتر اور سب سے زیادہ روشنی ملا عبد القادر بدایونی نے اپنی فارسی تصنیف "منتخب التواریخ" میں ڈالی ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ اکبر کے دین الہی کو بدایونی کی ہی تحریروں سے جانا گیا ہے تو غلط نہیں ہے۔ بدایونی چونکہ ان دنوں دربار سے دور ہو چکے تھے اس لئے انہوں نے اپنی اس کتاب کو بہت ہی رازدارانہ انداز میں تحریر کیا ہے اس لئے انہوں نے اکبر کے آس پاس رہنے والوں کو بہت برا بھلا کہا ہے لیکن انہوں نے پوری کتاب میں اکبر کے لئے کہیں بھی غلط الفاظ کا استعمال نہیں کیا۔ بادشاہ امسال دعوی نبوت کردہ است/ گر خدا خواہد پس از سالی خدا خواہد شدن۔ جیسے اشعار اکبر کے انہیں رویوں کی وجہ سے کہے گئے ہیں۔ اس کتاب میں اسی تجدد خواہی اور ان احکامات پر روشنی ڈالی گئی جو جسے پڑھ کر ہنسی بھی آتی ہے اور اکبری دور کی ان پرلطف داستانوں کا لطف بھی ملتا ہے۔
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free