aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
زیر نظر "دیوان اکبر" شاہ اکبر دانا پوری کا دیوان ہے۔ جس کی غزلوں میں جذب و مستی کی کیفیت کے علاوہ ملک و قوم کے مسائل پر بھی خامہ فرسائی کی گئی ہے۔ غزلوں میں بلا کی سلاست و روانی ہے۔ چوں کہ آپ کا تعلق ایک ایسے صوفی خانوادے سے تھا جو تصوف کے ساتھ ساتھ شعرو شاعری کا بھی دلدادہ تھا۔ اسی مناسبت اور وراثت کے چلتے آپ کا ذہنی میلان بھی شعرو شاعری کی طرف ہوا۔ اور اسی لئے آپ کی شاعری میں تصوف کی نمایا جھلک دیکھنے کو ملتی ہے۔
حضرت شاہ محمد اکبر داناپوری 1843 میں محلہ نئی بستی (اکبرآباد) آگرہ میں پیدا ہوئے۔ محمد اکبر نام تخلص اکبرؔ تھا۔ ان کے والد شاہ سجاد ابو العلائی داناپوری اپنے بڑے چچا زاد بھائی شاہ محمد قاسم کے ساتھ رشد و ہدایت کی غرض سے آگرہ میں مقیم تھے۔ آپ کے مریدین لاکھوں کی تعداد میں دنیا کے مختلف ممالک میں پھیلے ہوئے تھے۔ ان میں خصوص کے ساتھ پاکستان، بنگلہ دیش، مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور برطانیہ وغیرہ میں خاصی تعداد تھی۔
آپ کی ابتدائی تعلیم آپ کے والد کے بڑے بھائی سید شاہ محمد قاسم کے ابوالعلائی کے سپرد تھی۔ جنہوں نے ان کو بسم اللہ خوانی کرائی اور ان کو علم ظاہری کی تعلیم دیتے رہے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد ایک دینی درسگاہ میں آپ کا داخلہ کرا دیا گیا بعد فراغت تعلیم آپ اپنے چچا حضرت محمد قاسم داناپوری کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے۔ انہوں نے 1281 ہجری میں ان کو خلافت سے سرفراز کیا۔
21 سال کی عمر میں اپنے چچا کی پسند کے مطابق حسین منعمی دلاوری کی صاحبزادی احمد بی بی سے ان کا نکاح ہوا۔ ادائیگیٔ حج کے چند ہی سال کے بعد ان کی زوجہ کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد تقریباً 24 سال آپ با حیات رہے اور ہمہ وقت یاد الٰہی میں مشغول رہے اورباقی بچے وقت میں یہ تالیف و تصنیف اور رشد و ہدایت اور خدمت خلق میں مشغول رہ کر صرف کر دی۔
شاہ محمد اکبرؔ داناپوری کو 1881 عیسوی میں ان کے والد کی جگہ خانقاہ سجادیہ ابوالعلائی میں خاندانی سجادہ پر مشائخ اور عالم کی جماعت کے سامنے سجادہ نشینی سے سرفراز کیا گیا اور آپ بڑے حسن و خوش اسلوبی کے ساتھ اس فریضہ کو انجام دیتے رہے۔اپنی سجادگی کے زمانہ کے درمیان ہی سفر حج کا قصد کیا اور تقریباً 6 ماہ بعد حج سے واپس آئے۔ آپ نے اپنے حج کے کے حالات کو اپنی شاہکار تصنیفات ’اشرف التواریخ‘ اور ’تاریخ عرب‘ میں اس کا ذکر قلم بند کیا اور کچھ دلچسپ حالات کو مختصراً بیان بھی کیا ہے۔ انہوں نے خانۂ کعبہ کا ایک دلکش نظارہ اس طرح کھینچا ہے
سیاہ پوش جو کعبہ کو قیس نے دیکھا
ہوا نہ ضبط تو چلا اٹھا کر لیلیٰ
چوں کہ آپ کا تعلق ایسے صوفی خاندان سے تھا جو تصوف کے ساتھ ساتھ شعرو شاعری کے بھی دلدادہ تھے۔ اسی مناسبت اور وراثت کے چلتے ان کا ذہنی میلان بھی شعرو شاعری کی طرف ہوا۔ اپنی شاعری کے لیے یہ آتشؔ کے شاگرد وحیدؔ الہ آبادی سے اصلاح سخن لیتے رہے اور اس میں کمال بھی حاصل کیا۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے دونوں اکبرؔ ایک شاہ اکبرؔ دانا پوری اور دوسرے اکبرؔ الہ آبادی دونوں ہی وحید الہ آبادی کے شاگرد ہوئے۔ وحید صاحب کو اپنے ان دونوں شاگردوں پر فخر بھی تھا۔
آپ کی معاشرتی زندگی ہمیشہ سادی رہی لباس میں بھی سادگی تھی۔ آپ بہت خلیق تھے مزاج میں انکسار تھا کسی برائی کا انتقام دشمن سے نہیں لیتے تھے۔ کبھی کسی کی شکوہ اپنے زبان پر نہ لاتے ہمیشہ صبر کا انتہائی اظہار کرتے۔ دوستوں عزیزوں کو محبت کی نظر سے دیکھا کرتے ۔ اپنے تصانیف میں بھی اپنے ناقدوں کا نام اچھے القاب ، نیک خواہشات اور تعریف کے ساتھ لیا کرتے۔
شاہ اکبر داناپوری فطری طور پر ایک صوفی باعمل تھے اس لیے آپ کی شاعری میں بھی تصوف کی نمایاں جھلک دیکھنے کو ملتی ہے۔ ان کی شاعری حقائق و معارف کا ایک بے بہا خزانہ ہے۔ فن شاعری میں آپ مسلم الثبوت استاد تھے۔ غزلوں کا ہر ایک شعر تصوف و معرفت کے رنگ و نور سے منور نظر آتا ہے۔ آپ کے شعر گوئی میں سلاست بھی زیادہ ہے۔ ان کی شاعری گل و بلبل و ہجر و وصال تک محدود نہ تھی بلکہ آپ کے دل میں ملک و قوم کے خوش حالی کا بڑا خیال ہے اس کوشش میں ہی لگے رہے کی ہندوستانی قوم کو بیدار کر کے ہر قسم کے ہنر سیکھنے میں ان کی عادت ڈالی جائے تاکہ ملک کو فروغ ہو اور ہندوستانی قوم بھی اقوام عالم پر سبقت لے جائے۔
آپ کو عمر کے ساتویں دہے میں علالت نے اپنی زنجیر میں جکڑنا شروع کیا معالجے کے باوجود مرض بڑھتا رہا ۔ ضعف و نقاہت کی علامت اور بڑھتی گئی۔ آخر کار یہی ان کا مرض الاموات ثابت ہوا اور بالآخر 1909 عیسوی میں آپ نے وصال فرمایا۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets